معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 523
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ : اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ " (رواه البخارى)
اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی بندہ اذان سننے کے وقت اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرے " اے اللہ اس دعوت تامہ کاملہ اور اس صلوٰۃ قائمہ و دائمہ کے رب! (یعنی اے وہ اللہ جس کے لیے اور جس کے حکم سے یہ اذان اور یہ نماز ہے (اپنے رسول پاک) محمد کو وسیلہ اور فضیلہ کے خاص درجہ اور مرتبہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر سرفراز فرما جس کا تو نے ان کے لیے وعدہ فرمایا ہے۔ " تو وہ بندہ قیامت کے ند میری شفاعت کا حق دار ہو گیا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے لیے تین چیزوں کی دعا کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ اذان سننے کے وقت اللہ تعالیٰ سے ان تین چیزوں کے رسول اللہ ﷺ کو عطا کرنے کی دعا کرے گا وہ قیامت کے دن شفاعت محمدی ﷺ کا خاص طور سے حق دار ہو گا۔ ایک وسیلہ۔ دوسرے فضیلۃ۔ تیسرے مقام محمود۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس وسیلہ کی تشریح خود رسول اللہ ﷺ سے یہ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقبولیت و محبویت کا ایک خاص الخاص مقام و مرتبہ اور جنت کا ایک مخصوص و ممتاز درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک ہی بندہ کو ملنے والا ہے، اور سمجھنا چاہیے کہ فضیلۃ بھی گویا اسی مقام اختصاص و امتیاز کا ایک عنوان ہے اور اسی طرح مقام محمود و مقام عزت ہے جس پر فائز ہونے والا ہر ایک کی نگاہ میں محمود اور محترم ہو گا اور سب اس کے ثنا خواں اور شکر گزار ہوں گے۔ اسی سلسلہ میں معارف الحدیث کی پہلی جلد میں شفاعت کے بیان مین وہ حدیثیں ناظرین کی نظر سے گزر چکی ہوں گی جن مین بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے جلال کے ظہور کا خاص دن ہو گا اور سارے انسان اپنے اعمال اور احوال کے اختلاف کے باوجود اس وقت دہشت زدہ اور پریشان ہوں گے۔ حتیٰ کہ حضرت نوح و ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام جیسے اولو العزم پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں کچھ عرض کرنے کی ہمت نہ کر سکیں گے تو اس وقت سید الرسل حضرت محمد ﷺ ہی انا لها انا لها کہہ کرا حکم الحاکمین کی بارگاہ جلال میں سب سے پہلے سارے انسانوں کے لیے حساب اور فیصلہ کی استدعا اور شفاعت کریں گے اور اس کے بعد گنہگاروں کی سفارش اور ان کے دوزخ سے نکالے جانے کی استدعا کا دروازہ بھی آپ ہی کے اقدام سے کھلے گا، خود آپ ﷺ کا ارشاد ہے " أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ " (سب سے پہلا شافع میں ہوں گا اور بارگاہ خداوندی میں سے سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی) نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے " أَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُوْنَهُ، وَلَا فَخْرَ " (قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہو گا اور آدم اور ان کے علاوہ سارے انبیاء و رسل اور ان کے متبعین میرے اسی جھنڈے لواء الحمد کے نیچے ہوں گے) بس یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا ہے۔ " عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا " (بنی اسرائیل۔ ع ۱۰) (امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود عطا فرما دے)۔ الغرض وہ خاص الخاص مرتبہ اور درجہ جس کو حدیث میں وسیلہ اور فضیلہ کہا گیا ہے اور عزت و امتیاز اور محمودیت عامہ کا وہ مقام بلند جس کو قرآن مجید میں اور اس حدیث مقام محمود کہا گیا ہے۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ کی ہم امتیوں پر یہ نوازش ہے کہ زیر تشریح حدیث میں آپ ﷺ نے ہم کو اس کی ترغیب دی کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ یہ درجے اور مقامات آپ ﷺ کو عطا کیے جائیں اور بتلایا کہ جو کوئی میرے لیے یہ دعا کرے گا وہ قیامت کے دن میری شفاعت کا خاص طور سے مستحق ہو گا۔ فائدہ ...... مندرجہ بالا تینوں حدیثوں پر عمل کرنے کا طریقہ اور ترتیب یہ ہے کہ موذن کی اذان کے ساتھ تو اس کے ہر کلمے کو دہرایا جائے جس طرح کہ حضرت عمر ؓ کی حدیث میں مذکور ہوا، اور اس کے بعد سعد بن ابی وقاص کی حدیث کے مطابق کہا جائے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (آخر تک) اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کی جائے " اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ سے وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ " تک۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں " إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ " کا اضافہ بھی ہے اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ان احکام کی روح کو سمجھ کر ان پر عمل کی حقیقی برکات حاصل کریں۔
Top