معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 524
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا ، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُهَا » (رواه مسلم)
مساجد: ان کی عظمت و اہمیت اور آداب و حقوق
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مبغوض ان کے بازار اور منڈیاں ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جو عظیم و وسیع مقاصد نماز سے وابستہ ہیں جن میں سے بعض کی طرف حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے کچھ اشارے بھی کیے جا چکے ہیں۔ (1) ان کی تحصیل و تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ نماز کا کوئی اجتماعی نظام ہو، اسلامی شریعت میں اس اجتماعی نظام کا ذریعہ مسجد اور جماعت کو بنایا گیا ہے، ذرا سا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس امت کی دینی زندگی کی تشکیل و تنظیم اور تربیت و حفاظت میں مسجد اور جماعت کا کتنا بڑ ا دخل ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف تو جماعتی نظام کے ساتھ نماز ادا کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی اور ترک جماعت پر سخت وعیدیں سنائیں (جیسا کہ ناظرین عنقریب ہی پڑھیں گے) اور دوسری طرف آپ ﷺ نے مساجد کی اہمیت پر زور دیا اور کعبۃ اللہ کے بعد بلکہ اسی کی نسبت سے ان کو بھی " خدا کا گھر " اور امت کا دینی مرکز بنایا اور ان کی برکات اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی عظمت و محبوبیت بیان فرما کر امت کو ترغیب دی کہ ان کے جسم خواہ کسی وقت کہیں ہوں لیکن ان کے دلوں اور ان کی روحوں کا رخ ہر وقت مسجد کی طرف رہے، اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے مساجد کے حقوق اور آداب بھی تعلیم فرمائے۔ اس سلسلے کے آپ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے! تشریح ..... انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک ملکوتی و روحانی، یہ نورانی اور لطیف پہلو ہے، اور دوسرا مادی و بہیمی جو ظلماتی اور کثیف پہلو ہے۔ ملکوتی و روحانی پہلو کا تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر جیسے مقدس اشغال و اعمال ہیں، انہیں سے اس پہلو کی تربیت و تکمیل ہوتی ہے اور انہیں کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و محبت کا مستحق ہوتا ہے، اور ان مبارک اشغال و اعمال کے خاص مراکز مسجدیں ہیں جو ذکر و عبادت سے معمور رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کو " بیت اللہ " سے ایک خاص نسبت ہے اس لیے انسانی بستیوں اور آبادیوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب یہ مسجدیں ہی ہیں۔ اور بازار اور منڈیاں انے اصل موضوع کے لحاظ سے انسانوں کی مادی و بہیمی تقاضوں اور نفسانی خواہشوں کے مراکز ہیں اور وہاں جا کر انسان عموماً خدا سے غافل ہو جاتے ہین اور ان کی فضا غفلت اور منکرات و معصیات کی کثرت کی وجہ ظلماتی اور مکدررہتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسانی آبادیوں کا سب سے زیادہ مبغوض حصہ ہیں۔ حدیث کی اصل روح اور اس کا منشاء یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ مسجدوں سے زیادہ سے زیادہ تعلق رکھیں اور ان کو اپنا مرکز بنائیں اور منڈیوں اور بازاروں میں صرف ضرورت سے جائیں اور ان سے دل نہ لگائیں اور وہاں کی آلودگیوں سے مثلاً جھوٹ، فریب اور بد دیانتی سے اپنی حفاظت کریں۔ ان حدود کی پابندی کے ساتھ بازاروں سے تعلق رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بلکہ ایسے سودا گروں اور تاجروں کو خود رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت سنائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اصول دیانت و امانت کی پابندی کے ساتھ تجارتی کاروبار کریں اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ بیت الخلا غلاظت اور گندگی کی جگہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ اصلا سخت ناپسندیدہ مقام ہے لیکن ضرورت کے بقدر اس سے بھی تعلق رکھا جاتا ہے، بلکہ وہاں کے آنے جانے میں اور قضاء حاجت میں اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات و سنن کا لحاظ رکھے تو بہت کچھ ثواب بھی کما سکتا ہے۔
Top