معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 558
عَنِ النُّعْمَانِ بْنَ بَشِيرٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُسَوِّي صُفُوفَنَا حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ ، حَتَّى كَادَ يُكَبِّرُ فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنَ الصَّفِّ ، فَقَالَ : « عِبَادَ اللهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ » (رواه مسلم)
جماعت میں صف بندی: صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے کی اہمیت اور تاکید
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کراتے تھے گویا کہ ان کے ذریعہ آپ تیروں کو سیدھا کریں گے یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے (کہ ہم کو کس طرح برابر کھڑا ہونا چاہئے) اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ ﷺ تکبیر کہہ کے نماز شروع فرما دیں کہ آپ ﷺ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھا اور بالکل برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے الفاظ: حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ " گویا کہ آپ ﷺ صفوں کے ذریعہ تیر سیدھے کریں گے " کا مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لئے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر کرنے کی بڑی کوشش کی جاتی تھی، اس لئے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں مبالغے کے طور پر وہاں کہا جاتا تھا کہ وہ چیز ایسی برابر اور اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ تیروں کو سیدھا اور برابر کرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے۔ الغرض اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا مطلب بس یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھی اور برابر کرنے کی کوشش فرماتے تھے کہ ہم میں سے کوئی سوت برابر بھی آگے یا پیچھے نہ ہو، یہاں تک کہ طویل مدت کی اس مسلسل کوشش اور تربیت کے بعد آپ ﷺ کو اطمینان ہو گیا کہ ہم کو یہ بات سمجھ آ گئی، لیکن اس کے بعد جب ایک دن آپ ﷺ نے اس معاملہ میں ایک آدمی کی کوتاہی دیکھی تو بڑے جلال کے انداز میں فرمایا کہ: اللہ کے بندو! میں تم کو آگاہی دیتا ہوں کہ اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بےپروائی اور کوتاہی کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا، یعنی تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ پارہ کر دی جائے گی اور تم میں پھوٹ پڑ جائے گی، جو امتوں اور قوموں کے لیے اس دنیا میں سو عذابوں کا ایک عذاب ہے۔ صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں کوتاہی اور غفلت پر باہمی اختلاف اور پھوٹ کی وعید متعدد حدیثوں میں وارد ہوئی ہے اور بلا شبہ اس قصور اور اس کی اس سزا میں خاص مناسبت ہے۔ افسوس بہت سی دوسری چیزوں کی طرح اس معاملہ میں بھی کوتاہی خاص کر بعض علاقوں میں بہت عام ہو چکی ہے۔
Top