معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 568
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً ، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً ، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً ، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا ، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ » (رواه مسلم)
امامت کی ترتیب
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہو، اور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو، اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں (یعنی سب کا زمانہ ہجرت ایک ہی ہو) تو پھر وہ شخص امامت کرے جو سن کے لحاظ سے مقدم ہو، اور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں اس کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے، دین کے تمام اعمال میں سب سے اہم اور مقدم نماز ہے اور دین کے نظام میں اس کا درجہ اور مقام گویا وہی ہے جو جسم انسانی میں قلب کا ہے، اس لئے اس کی امامت بہت بڑا دینی منصب اور بڑی بھاری ذمہ داری، اور رسول اللہ ﷺ کی ایک طرح کی نیابت ہے۔ اس واسطے ضروری ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو موجودہ نمازیوں میں دوسروں کی بہ نسبت اس عظیم منصب کے لئے زیادہ اہل اور موزوں ہو، اور وہ وہی ہو سکتا ہے، جس کو رسول اللہ ﷺ سے نسبۃً زیادہ قرب و مناسبت حاصل ہو اور آپ ﷺ کی دینی وراثت سے جس نے زیادہ حصۃ لیا ہو، اور چونکہ آپ ﷺ کی وراثت میں اول اور اعلیٰ درجہ قرآن مجید کا ہے، اس لئے جس شخص نے سچا ایمان نصیب ہونے کے بعد قرآن مجید سے خاص تعلق پیدا کیا، اس کو یاد کیا اور اپنے دل میں اتارا، اس کی دعوت، اس کی تذکیر اور اس کے احکام کو سمجھا، اس کو اپنے اندر جذب اور اپنے اوپر طاری کیا، وہ رسول اللہ ﷺ کی وراثت کے خاص حصہ داروں میں ہو گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو اس سعادت میں اس سے پیچھے ہوں گے آپ ﷺ کی اس نیابت یعنی امامت کے لئے زیادہ اہل اور زیادہ موزوں ہو گا۔ اور اگر بالفرض سارے نمازی اس لحاظ سے برابر ہوں تو چونکہ قرآن مجید کے بعد سنت کا درجہ ہے اس لئے اس صورت می ترجیح اس کو دی جائے گی جو سنت و شریعت کے علم میں دوسروں کے مقابلے میں امتیاز رکھتا ہو گا اور اگر بالفرض اس لحاظ سے بھی سب برابر کے سے ہون تو پھر جو کوئی ان میں تقویٰ اور پرہیزگاری اور محاسن اخلاق جیسی دینی صفات کے لحاظ سے ممتاز ہو گا امامت کے لئے وہ لائق ہو گا، اور اگر بالفرض اس طرح کی صفات میں بھی یکسانی سی ہو تو پھر عمر کی بڑائی کے لحاظ سے ترجیح دی جائے گی، کیوں کہ عمر کی بڑائی اور بزرگی بھی ایک مسلم فضیلت ہے۔ بہرحال امامت کے لئے یہ اصولی ترتیب عقل سلیم کے بالکل مطابق مقتضائے حکمت ہے، ا ور یہی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت ہے۔ تشریح ..... حدیث کے لفظ اقرأھم لکتاب اللہ کا لفظی ترجمہ وہی ہے جو یہاں کیا گیا ہے۔ یعنی " کتاب اللہ کا زیادہ پڑھنے والا " لیکن اس کا مطلب نہ تو صرف حفظ قرآن ہے اور نہ مجرد کثرت تلاوت، بلکہ اس سے مراد ہے حفظ قرآن کے ساتھ اس کا خاص علم اور اس کے ساتھ خاص شغف۔ عہد نبوی ﷺ میں جو لوگ قراء کہلاتے تھے ان کا یہی امتیاز تھا۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز کی امامت کے لئے زیادہ اہل اور موزوں وہ شخص ہے جو کتاب اللہ کے علم اور اس کے ساتھ شغف و تعلق میں دوسروں پر فائق ہو، اور ظاہر ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں یہی سب سے بڑا دینی امتیاز اور فضیلت کا معیار تھا، اور جس کا اس سعادت میں جس قدر زیادہ حصہ تھا وہ اسی قدر رسول اللہ ﷺ کی خاص وراثت و امانت کا حامل اور امین تھا۔ اس کے بعد سنت و شریعت کا علم فضیلت کا دوسرا معیار تھا (اور یہ دونوں علم یعنی علم قرآن اور علم سنت جس کے پاس بھی تھے، عمل کے ساتھ تھے۔ علم بلا عمل کا وہاں وجود ہی نہیں تھا) فضیلت کا تیسرا معیار عہد نبوت کے اس خاص ماحول میں ہجرت میں سابقیت تھی، اس لئے اس حدیث میں تیسرے نمبر پر اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن بعد میں یہ چیز باقی نہیں رہی، اس لئے فقہائے کرام نے اس کی جگہ صلاح و تقوے میں فضیلت و فوقیت کو ترجیح کا تیسرا معیار قرار دیا ہے جو بالکل بجا ہے۔ ترجیح کا چوتھا معیار اس حدیث میں عمر میں بزرگی کو قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر مذکورہ بالا تین معیاروں کے لحاظ سے کوئی فائق اور قابل ترجیح نہ ہو تو پھر جو کوئی عمر میں بڑا اور بزرگ ہو وہ امامت کرے۔ حدیث کے آخر میں دو ہدایتیں اور بھی دی گئی ہیں ایک یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے شخص کی امامت و سیادت کے حلقہ میں جائے تو وہاں امامت نہ کرے بلکہ اس کے پیچھے مقتدی بن کر نماز پڑھے۔ (ہاں اگر وہ شخص خود ہی اصرار کرے تو دوسری بات ہے)۔ اور دوسری یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے گھر جائےتو اس کی خاص جگہ پر نہ بیٹھے، ہاں اگر وہ خود بٹھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں ہدایتوں کی حکمت و مصلحت بالکل ظاہر ہے۔
Top