معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 571
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ وَالضَّعِيفَ ، وَالْكَبِيرَ ، وَإِذَا صَلَّى اَحَدُكُمْ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ. (رواه البخارى ومسلم)
مقتدیوں کی رعایت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے (یعنی زیادہ طول نہ دے) کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی اور بوڑھے بھی (جن کے لئے طویل نماز باعث زحمت ہو سکتی ہے) اور جب تم میں سے کسی کو بس اپنی نماز اکیلے پڑھنی ہو تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بعض صحابہ کرام جو اپنے قبیلہ یا حلقہ کی مسجدوں میں نما پڑھاتے تھے اپنے عبادتی ذوق وشوق میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جس کی وجہ سے بعض بیمار یا کمزور یا بوڑھے یا تھکے ہارے مقتدیوں کو کبھی کبھی بڑی تکلیف پہنچ جاتی تھی، اس غلطی کی اصلاح کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مختلف موقعوں پر اس طرح کی ہدایت فرمائی۔ آپ ﷺ کا منشاء اس سے یہ تھا کہ امام کو چاہئے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں کبھی کوئی بیمار یا کمزور یا بوڑھا بھی ہوتا ہے، اس لئے نماز زیادہ طویل نہ پڑھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت کی نماز میں بس چھوٹی چھوٹی سورتیں ہی پڑھی جائیں اور رکوع سجدہ میں تین دفعہ سے زیادہ تسبیح بھی نہ پڑھی جائے خود رسول اللہ ﷺ جیسی معتدل نماز پڑھاتے تھے وہی امت کے لئے اس بارے میں اصل معیار اور نمونہ ہے اور اس کی روشنی میں ان ہدایات کا مطلب سمجھا چاہئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ حدیثیں آگے اپنے موقع پر آئیں گی جن سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کی تفصیلی کیفیت اور قرأت وغیرہ کی مقدار معلوم ہو گی۔
Top