معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 602
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَأْتِي فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ ، فَصَلَّى لَيْلَةً مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَأَمَّهُمْ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ فَقَالُوا لَهُ : أَنَافَقْتَ؟ يَا فُلَانُ ، قَالَ : لَا. وَاللهِ وَلَآتِيَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأُخْبِرَنَّهُ. فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، إِنَّا أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّى مَعَكَ الْعِشَاءَ ، ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَاذٍ فَقَالَ : « يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟ اقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالضُّحَى ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى ، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى » (رواه البخارى ومسلم)
نماز عشاء میں رسول اللہ ﷺ کی قرأت
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھتے، پھر آ کر اپنے قبیلہ کی مسجد میں امامت کرتے۔ ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر اپنے قبیلہ میں آئے اور ان کی امامت کی، اور (سورہ فاتحہ کے بعد) سورہ بقرہ شروع کر دی۔ ایک شخص نماز توڑ کر پیچھے ہٹ گیا، اور اس نے تنہا اپنی نماز پڑھی۔ (چانکہ یہ بات بہت غیر معمولی تھی، اور اس دور میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ کرنا منافقوں ہی کا طریقہ تھا، اس لئے) لگوں نے اس کو بہت محسوس کیا، اور اس شخص سے کہا، " فلانے! تو منافق تو نہیں ہو گیا ہے؟ " اس نے جواب دیا " خدا کی قسم نہیں! بلکہ میں خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کے سامنے یہ بات رکھوں گا "۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا " یا رسول اللہ! ہمارا کام اونٹوں کے ذریعہ پانی سینچنا ہے، ہم لوگ دن بھر محنت مشقت کرتے ہیں اور (گزشتہ رات ایسا ہوا کہ) معاذ عشاء کی نماز آپ ﷺ کے ساتھ پڑھنے کے بعد اپنے قبیلہ کی مسجد میں آئے (اور یہاں انہوں نے نماز پڑھانی شروع کی) تو سورہ بقرہ شروع کر دی؟ " رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر نے حضرت معاذؓ کی طرف رخ فرمایا اور ارشاد فرمایا۔ معاذ! کیا لوگوں کو تم فتنہ میں میں مبتلا کرنا چاہتے ہو سورہ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا، وَ الضُّحٰى، سورہ وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ عشاء کی نماز دو دفعہ پڑھتے تھے، ایک دفعہ مسجد نبوی میں آنحضرت ﷺ کے مقتدی بن کر، اور دوسری دفعہ اپنے قبیلہ کی مسجد میں امام بن کر، لیکن جمہور ائمہ و علماء اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے ایک دفعہ کی نماز وہ نفل کی نیت سے پڑھتے تھے۔ حضرت امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ جو نماز وہ مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور آپ ﷺ کی اقتداء میں پڑھتے تھے وہ فرض کی نیت سے پڑھتے تھے اور اپنے قبیلہ والی مسجد میں امام بن کر نفل کی نیت سے پڑھتے تھے، اسی بناء پر حضرت امام شافعی ؒ اس کے قائل ہیں کہ نفل پڑھنے والے امام کی اقتداء میں فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے، ان کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن حضرت امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی تحقیق یہ ہے کہ نفل پڑھنے والے امام کی اقتداء میں فرض نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ حضرت معاذ ؓ کے زیر بحث واقعہ کے متعلق ان حضرات کا خیال یہ ہے کہ وہ فرض عشاء کی نیت سے اپنے قبیلہ کی مسجد ہی میں نماز پڑھاتے تھے، اور چونکہ مسجد نبوی کی جماعت کے وقت تک وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اس لئے آپ ﷺ کی نماز کی خاص برکات میں حصہ لینے کے لئے اور سیکھنے کی غرض سے وہ نفل کی نیت سے آپ ﷺ کے ساتھ بھی شریک ہو جاتے تھے۔ اس مسئلہ پر بھی دونوں طرف بڑی فاضلانہ فقیہانہ اور محدثانہ بحثیں کی گئی ہیں۔ اہل علم شروح حدیث فتح الباری عمدۃ القاری اور فتح الملہم میں دیکھ سکتے ہیں۔ حدیث کی خاص ہدایت جو ہمارے موضوع اور عنوان سے متعلق ہے بس یہ ہے کہ ائمہ کو چاہئے کہ وہ نماز اتنی طویل نہ پڑھیں جو مقتدیوں کے لیے باعث مشقت ہو جائے، خاص کر ضعیفوں، کمزوروں اور محنت پیشہ لوگوں کا لحاظ رکھیں۔
Top