معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 603
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : « مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَحَدٍ أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فُلَانٍ - قَالَ سُلَيْمَانَ – صَلَّيْتُ خَلْفَهُ فَكَانَ يُطِيلُ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ ، وَيُخَفِّفُ الْأُخْرَيَيْنِ ، وَيُخَفِّفُ الْعَصْرَ ، وَيَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ ، وَيَقْرَأُ فِي الْعِشَاء بِوَسَطِ الْمُفَصَّلِ ، وَيَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ بِطُوَلِ الْمُفَصَّلِ » (رواه النسائى)
مختلف اوقات کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قرأت
سلیمان بن یسار تابعی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے زمانہ کے ایک امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ: میں نے کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی، جو رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہ ہو فلاں امام کی بہ نسبت۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ان صاحب کے پیچھے میں نے بھی نماز پڑھی ہے۔ ان کا معمول یہ تھا کہ ظہر کی پہلی دنوں رکعتیں لمبی پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور عصر ہلکی ہی پڑھتے تھے، اور مغرب میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے۔ (سنن نسائی)

تشریح
" مفصل " قرآن مجید کی آخری منزل کی سورتوں کو کہا جاتا ہے یعنی سورہ حجرات سے آخر قرآن تک پھر اس کے بھی تین حصے کئے گئے ہیں۔ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک کی سورتوں کو " طوال مفصل " کہا جاتا ہے، اور بروج سے لے کر سورہ لم یکن تک کی سورتوں کو " اوساط مفصل " اور لم یکن سے لے کر آخر تک کی سورتوں کو " قصار مفصل " کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں ان صاحب کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جن کے متعلق حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ: " ان کی نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ تھی، اور کسی شخص کے پیچھے میں نے ایسی نماز نہیں پڑھی، جو بہ نسبت ان کی نماز کے حضور ﷺ کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ ہو "۔ بہرحال ان صاحب کا نام نہ تو حضرت ابو ہریرہؓ نے ذکر کیا اور نہ سلیمان بن یسار تابعی نے، مگر شارحین حدیث نے محض قیاس اور اندازہ سے ان کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے، مگر کوئی بات بھی اس بارے میں قابل اطمینان نہیں ہے، لیکن حدیث کا مضمون بالکل واضح ہے اور نام معلوم نہ ہونے سے اصل مقصد اور مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سلیمان بن یسار تابعی نے ان صاحب کی نماز کے بارے میں جو تفصیل بیان کی ہے حضرت ابو ہریرہؓ کے مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں اسیسے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مختلف اوقات کی نماز کی قرأت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بھی وہی تھا جو ان صاحب کا معمول سلیمان بن یسار نے بیان کیا ہے یعنی ظہر کی نماز میں تطویل، عصر میں تخفیف، مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل، اور فجر میں طوال مفصل۔ حضرت عمر ؓ نے اس بارے میں حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو جو خط لکھا تھا (جس کا پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے) اس میں بھی مختلف اوقات کی نمازوں کی قرأت کے بارے میں یہی ہدایت کی گئی ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں سند کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے اس خط کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: كَتَبَ عُمَرُ اِلَى اَبِىْ مُوْسَى اَنِ اقْرَاْ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ، وَفِي الْعِشَاءِ بِوَسَطِ الْمُفَصَّلِ، وَفِي الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ » (نصب الرايه) (حضرت عمر ؓ نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا کہ مغرب کی نماز میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھا کرو۔ (نصب الرایہ) اور امام ترمذی نے اسی خط کا حوالہ دیتے ہوئے ظہر میں اوساط مفصل پڑھنے کی ہدایت کا بھی ذکر کیا ہے۔ (جامع ترمذى باب ما جاء فى القراءة فى الظهر والعصر) ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ ہدایت جب ہی فرمائی ہو گی، جب کہ رسول اللہ ﷺ کی قولی اور عملی تعلیم سے انہوں نے ایسا ہی سمجھا ہو گا۔ اسی بناء پر اکثر ائمہ مجتہدین نے مختلف اوقات کی نمازوں میں قرأت کی مقدار کے بارے میٰں حضرت عمر رسول اللہ ﷺ کے اس خط کو خاص راہنما مان کر اسی کے مطابق عمل کو اولیٰ اور مستحسن قرار دیا ہے۔
Top