معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 608
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَالَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} فَقُولُوا : آمِينَ ، يُجِبْكُمُ اللهُ. (رواه مسلم)
سورہ فاتحہ کے ختم پر “ آمین ”
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفیں اچھی طرح درست اور سیدھی کرو، پھر تم میں سے کوئی امام بنے، پھر جب وہ امام تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو، اور جب وہ سورہ فاتحہ کی آخری آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھے تو تم کہو آمین (یعنی اے اللہ! قبول فرما۔ جب تم ایسا کرو گے) تو اللہ تعالیٰ سورہ فاتحہ میں مانگی ہوئی ہدایت کی دعا قبول فرما لے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
آمین دراصل قبولیت دیا کی درخواست ہے، اور بندے کی طرف سے اس بات کا اظہار ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا قبول ہی کر لے اس لئے سائلانہ دعا کرنے کے بعد وہ آمین کہہ کے پھر درخواست کرتا ہے کہ اے اللہ! محض اپنے کرم سے میری حاجت پوری فرما دے اور میری دعا قبول فرما لے۔ اس طرح یہ مختصر سا لفظ رحمت خداوندی کو متوجہ کرنے والی ایک مستقل دعا ہے۔ سنن ابی داؤد میں ابو زہیر نمیری ؓ سے روایت ہے کہ: " ایک رات ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے جا رہے تھے ایک شخص کے پاس سے گزرنا ہوا جو بڑے الحاح اور انہماک کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اپنی دعا پر مہر لگا دے تو یہ ضرور قبول کرا لے گا۔ آپ ﷺ کے ساتھیوں میں سے کسی نے عرض کیا کہ کس چیز کی مہر؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آمین کی مہر " اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا کے ختم پر آمین کہنا ان چیزوں میں سے ہے جن سے دعا کی قبولیت کی خاص امید کی جا سکتی ہے۔
Top