معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 627
عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ : كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي : « سَلْ » فَقُلْتُ : أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ : « أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ » قُلْتُ : هُوَ ذَاكَ. قَالَ : « فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ » (رواه مسلم)
سجدہ کی فضیلت
ربیعہ بن کعب اسلمی (جو اصحاب صفہ میں سے تھے اور سفر و حضر میں رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص کی حیثیت سے آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے) بیان فرماتے ہیں کہ: میں ایک رات کو حضور ﷺ کے ساتھ اور آپ ﷺ کی خدمت میں تھا (جب آپ ﷺ تہجد کے لئے رات کو اٹھے) تو میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر حاضر خدمت ہوا تو آپ ﷺ نے (مسرت اور انبساط کے خاص عالم میں) مجھ سے فرمایا: " ربیعہ کچھ مانگو " (آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے دل میں اگر کسی خاص چیز کی چاہت اور آرزو ہو تو اس وقت مانگ لو میں اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کروں گا، اور امید ہے کہ وہ تمہاری مراد پوری کر دے گا)۔ ربیعہؓ کہتے ہیں۔ میں نے عرج کیا۔ میری مانگ یہ ہے کہ جنت میں آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی یا اس کے سوا کچھ اور؟ میں نے عرض کیا: میں تو بس یہی مانگتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے اس معاملہ میں سجدوں کی کثرت کے ذریعہ میری مدد کرو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مقربین بارگاہ خداوندی پر کبھی کبھی ایسے احوال آتے ہیں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت رحمت حق متوجہ ہے، اور جو کچھ مانگا جائے امید ہے کہ ان شاء اللہ مل ہی جائے گا، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آنحضرت ﷺ نے ربیعہ بن مالک کی خدمت سے متاثر ہو کر ان سے فرمایا کہ « سَلْ » (جس چیز کی تمہیں چاہت ہو وہ مانگو) غالبا وہ کوئی ایسی ہی گھڑی تھی، لیکن جب انہوں نے اس کے جواب میں " جنت میں حضور ﷺ کی رفاقت " مانگی اور مکرر دریافت کرنے پر بھی یہی کہا کہ: " مجھے تو بس یہی چاہئے اس کے سوا کچھ نہیں " تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ: فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ (پھر اپنے اس معاملہ میں میری مدد کرو سجدوں کی کثرت کے ذریعہ) گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے ان کو بتایا کہ تم جو جنت میں میری رفاقت چاہتے ہو یہ بہت بلند درجہ اور عظیم مرتبہ ہے، میں تمہارے واسطے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرتا ہوں اور کروں گا لیکن اتنا بلند مقام حاصل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی اس کا استحقاق پیدا کرنے کی عملی کوشش کرو، اور وہ خاص عمل جو اس منزل تک پہنچانے میں خصوصیت کے ساتھ مدد گار ہو سکتا ہے اللہ کے حضور میں سجدوں کی کثرت ہے لہذا تم اس کا خاص اہتمام کر کے اپنے اس معاملہ میں میری مدد کرو، اور اپنے عمل سے میری دعا کو قوت پہنچاؤ۔ واضح رہے کہ حضرت ربیعہؓ کی اس حدیث اور اس سے اوپر والی حضرت ثوبانؓ کی حدیث میں کثرت سجود سے مراد نمازوں کی کثرت ہے، لیکن چونکہ جنت اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت حاصل ہونے میں نماز کے دوسرے ارکان و اجزاء سے زیادہ سجدہ کو دخل ہے اس لئے بجائے کثرت صلوٰۃ کے کثرت سجود کا لفظ استعمال کی گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top