معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 642
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ قُلْتُ يَارَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاتِي. قَالَ : " قُلِ : اللهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا ، وَلا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ ، وَارْحَمْنِي ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ". (رواه البخارى ومسلم)
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ)! مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرما دیجئے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یوں عرض کیا کرو اللهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ...... (اے اللہ! میں نے خود اپنے اوپر بہت ہی ظلم کیا ہے (یعنی گناہوں سے اپنے آپ کو بہت ہی تباہ و برباد کیا ہے) اور تیرے سوا کوئی نہیں ہے جو گناہوں کو بخش سکتا اور معافی دے سکتا ہو۔ پس اے میرے اللہ! تو محض اپنی طرف سے اور اپنے فضل و کرم سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور بس تو ہی بہت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے اور بخشش و رحمت تیری ہی ذاتی صفت ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ کی درخواست پر یہ دعا نماز میں پڑھنے کے لئے تعلیم فرمائی تھی، لیکن یہ بات لفظوں میں مذکور نہیں ہے کہ نماز کے آخر میں سلام سے پہلے پڑھنے کے لئے تعلیم فرمائی تھی، مگر شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ چونکہ نماز میں دعا کا وہی خاص محل و موقع ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسی موقع کے لئے فرمایا تھا: " تشہد کے بعد سلام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے بندہ کوئی اچھی دعا منتخب کرے اور وہی اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ " (جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ اعنہ کی صحیح والی حدیث سے ابھی اوپر معلوم ہو چکا ہے) اس لئے ظاہر یہی ہے کہ ........ صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ نے اسی موقع کی دعا کے لئے تعلیم کی درخواست کی تھی، اور رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا ان کو اسی موقع کے لئے تعلیم فرمائی۔ غالبا اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے امام بخارؒ نے صحیح بخاری میں یہ حدیث " باب الدعا قبل السلام " کے زیر عنوان روایت کی ہے۔ اس دعا میں غور کرنے اور سمجھنے کی خاص بات یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ اعنہ جو بار بار جنت کی بشارت سے سرفراز ہو چکے ہیں اور جو یقینا امت میں سب سے افضل ہیں اور ان کی نماز پوری امت میں سب سے بہتر اور کامل نماز ہے۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ ﷺ نے آخری مرض میں ان کو امام بنایا اور ان کے پیچھے خود نمازیں پڑھیں، وہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے کوئی خاص دعا تعلیم فرما دیجئے جو میں نماز میں (یعنی اس کے خاتمہ پر سلام سے پہلے) اللہ سے مانگا کروں! رسول اللہ ﷺ اس کے جواب میں ان کو یہ دعا تعلیم فرماتے ہیں۔ گویا آپ ﷺ نے ان کو بتایا کہ اے ابو بکرؓ! نماز پڑھ کر بھی دل میں یہ وسوسہ نہ آئے کہ اللہ کی عبادت کا حق ادا ہو گیا اور کچھ کر لیا، بلکہ نماز جیسی عبادت کے خاتمہ پر بھی اپنے کو سر سے پاؤں تک قصور وار اور خطاکار قرار دیتے ہوئے اس کے سامنے اپنی گناہگاری کا اقرار کرو اور اس سے معافی اور بخشش اور رحم کی بھیگ مانگو، اور یہ کہہ کے مانگو کہ میرے اللہ! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے بخشش اور معافی بھی میرا حق ہو، تو اپنی صفت مغفرت و رحمت کا بس صدقہ مجھ گناہگار کو عطا فرما دے اور میرے لئے مغفرت و رحمت کا فیصلہ فرما دے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ تشہد اور درود شریف کے بعد اور سلام سے پہلے یہ دعائیں ضرور مانگنی چاہئیں۔ ان کا یاد کرنا اور ان کا مطلب بھی ذہن میں بٹھا لینا کوئی بڑی اور مشکل بات نہیں ہے۔ معمولی توجہ سے تھوڑے سے وقت میں یہ کام ہو سکتا ہے۔ بڑی بےنصیبی اور ناقدری کی بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عطا فرمائے ہوئے ان جواہرات سے ہم محروم رہیں۔ خدا کی قسم حضور ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی ایک ایک دعا دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔
Top