معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 643
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ » (رواه ابوداؤد والترمذى والدارمى وابن ماجه)
خاتمہ نماز کا سلام
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور اس کی تحریمہ اللہ اکبر کہنا ہے اور اس کی بندشیں کھولنے کا ذریعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ کہتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند دارمی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح نماز کے افتتاح اور آغاز کے لئے کلمہ اللہ اکبر تعلیم فرمایا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ افتتاح نماز کے لئے سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح اس کے اختتام کے لئے " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ " تلقین فرمایا ہے، اور بلاشبہ نماز کے خاتمہ کے لئے بھی اس سے بہتر کوئی لفظ نہیں سوچا جا سکتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سلام اس وقت کیا جاتا ہے جب ایک دوسرے سے غائب اور الگ ہونے کے بعد پہلی ملاقات ہو، لہٰذا اختتام کے لئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی تعلیم میں واضح اشارہ ہے بلکہ تویا ہدایت ہے کہ بندہ اللہ اکبر کہہ کے جب نماز میں داخل ہو اور بارگاہ خداوندی میں عرض معروض شروع کرے تو چاہئے کہ وہ اس وقت اس عالم شہود سے حتی کہ اپنے ماحول اور اپنے دائیں بائیں والوں سے بھی غائب اور الگ ہو جائے، اور اللہ کے سوا کوئی بھی اس وقت اس کے دل کی نگاہ کے سامنے نہ رہے، پوری نماز میں اس کا حال یہی رہے۔ پھر جب قعدہ اخیرہ میں تشہد اور درود شریف اور آخری دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر کے اپنی نماز پوری کر لے، تو اس کے باطن کا حال یہ ہو کہ گویا اب وہ کسی دوسرے عالم سے اس دنیا میں اور اپنے ماحول میں واپس آیا ہے اور دائیں بائیں والے انسانوں یا فرشتوں سے اب اس کی نئی ملاقات ہو رہی ہے اس لئے اب وہ ان کی طرف رخ کر کے اور ان ہی سے مخاطب ہو کر کہے: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ اس عاجز کے نزدیک اس حکم کا یہی راز اور یہی اس کی حکمت ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کے بعد سلام سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے۔ تشریح ....... اس حدیث میں نماز سے متعلق تین باتیں فرمائی گئی ہیں: ۱۔ اول یہ کہ نماز جو بارگاہ خداوندی کی خاص حاضری ہے طہارت اور باوضو ہونا اس کی کنجی یعنی اس کی مقدم شرط ہے، اس کے بغیر کسی کے لئے اس بارگاہ دروازہ نہیں کھل سکتا۔ ۲۔ دوسرے یہ کہ نماز کا افتتاحی کلمہ لفظ اللہ اکبر ہے، اس کے کہتے ہی نماز والی ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں، مثلاً کھانا پینا، کسی سے بات چیت کرنا جیسے کام، جن کی اجازت تھی، وہ بھی ختم نماز تک کے لئے حرام ہو جاتے ہیں، اس لئے اس کو " تکبیر تحریمہ " کہتے ہیں۔ ۳۔ تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ نماز کا اختتامی کلمہ جس کے کہنے کے بعد نماز والی ساری پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں، اور جو جائز مباح چیزیں " تکبیر تحریمہ " کہنے کے بعد اس کے لئے ناجائز اور حرام ہو گئی تھیں وہ سب حلال ہو جاتی ہیں، وہ کلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہے۔
Top