معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 652
عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا يَقُولُ : « اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ » (رواه مسلم)
سلام کے بعد ذکر و دعا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد نہیں بیٹھتے تھے مگر بقدر اس کے کہتے: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (اے اللہ! تو سالم ہے۔ یعنی محفوظ و منزہ ہے ہر عیب و نقص سے، تمام آفات و حوادث سے، ہر قسم کے تغیر و زول سے۔ اور سلامتی تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یعنی جب جس کے لئے تو چاہے سلامتی کا فیصلہ کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ تو برکت والا ہے، اے بزرگی اور برتری والے، تعظیم و اکرام والے)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سلام پھیرنے کے بعد صرف اس مختصر دعا اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ کے بقدر ہی بیٹھتے تھے اور اس کے بعد فوراً اُٹھ جاتے تھے لیکن جو حدیثیں اوپر مذکور ہوئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سلام کے بعد اس کے علاوہ بھی مختلف دعائیں اور ذکر کے مختلف کلمات پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب اور تعلیم دیتے تھے۔ بعض حضرات نے اس اشکال کو اس طرح حل کیا ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی حمد، تسبیح اور توحید و تکبیر کے جن کلمات اور جن دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ آپ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد متصلاً نہیں پڑھتے تھے، بلکہ بعد کی سنتوں وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد پڑھا کرتے تھے، اور دوسروں کو ان کے پڑھنے کی جو ترغیب و تعلیم آپ نے دی ہے اس کا بھی یہی محل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو حدیثیں اوپر ذکر کی گئی ہیں (اور ان کے علاوہ بھی نماز کے بعد دعاؤں کے بارے میں جو بہت سی حدیثیں کتب حدیث میں محفوظ ہیں) ان میں سے اکثر کے ظاہری الفاظ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سلام پھیرنے کے بعد متصلا یہ دعائیں اور ذکر کے یہ کلمات پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے، اس لیے اس عاجز کے نزدیک صحیح طریق کار وہ معلوم ہوتا ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اختیار فرمایا ہے۔ وہ سلام کے بعد کی ان تمام ماثور دعاؤں کا حوالہ دینے کے بعد جو حدیث کی متداول کتابوں میں مروی ہیں (اور جن میں سے اکثر ان صفحات میں بھی نقل ہو چکی ہیں) فرماتے ہیں: " بہتر یہ ہے کہ یہ دعا میں اور ذکر الہی کے یہ کلمے (سلام پھیرنے کے بعد متصلا) بعد والی سنتوں سے پہلے ہی پڑھے جائیں، کیوں کہ اس سلسلہ کی بعض حدیثوں میں تو اس کی بالکل تصریح ہے ....... اور بعض کے الفاظ کا ظاہری تقاضا یہی ہے ........ رہی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی یہ حدیث کہ: آنحضرت ﷺ سلام پھیرنے کے بعد صرف اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ...... کہنے کے بقدر ہی بیٹھتے تھے " تو اس کی کئی توجیہیں کی جا سکتی ہیں۔ مثلا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صدیقہؓ کا مطلب یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ نماز کی ہیئت پر صرف اسی قدر بیٹھتے تھے، اس کے بعد نشست بدل دیتے تھے اور داہنی جانت یا بائیں جانب یا مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ (جیسا کہ آپ کا یہ معمول بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے) اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صدیقہ ؓ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ گاہ بگاہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد صرف اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ..... پڑھ کے اٹھ جاتے تھے اور ایسا آپ غالبا اس لئے کرتے تھے کہ لوگوں کو اپ کے عمل سے بھی معلوم ہو جائے کہ سلام کے بعد ان دعاؤں اور ذکر کے ان کلمات کا پڑھنا فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ اس کا درجہ ایک مستحب اور نفلی عبادت کا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ۔ جلد ثانی ص ۱۲) فائدہ ......... سلام کے بعد ذکر و دعا کے بارے میں جو حدیثیں اوپر مذکور ہوئیں ان سے یہ تو معلوم ہو چکا کہ نماز کے خاتمہ پر یعنی سلام کے بعد ذکر و دعا رسول اللہ ﷺ سے عملا بھی ثابت ہے اور تعلیما بھی، اور اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن یہ جو رواج ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دعا میں بھی مقتدی نماز ہی کی طرح امام کے پابند رہتے ہیں۔ حتی کہ اگر کسی کو جلدی جانے کی ضرورت ہو تب بھی امام سے پہلے اس کا اٹھ جانا برا سمجھا جاتا ہے، یہ بالکل بےاصل ہے بلکہ قابل اصلاح ہے، امامت اور اقتداء کا رابطہ سلام پھیرنے پر ختم ہو جاتا ہے، اس لئے سلام کے بعد دعا میں امام کی اقتداء اور پابندی ضروری نہیں، چاہے تو مختصر دعا کر کے امام سے پہلے اٹھ جائے اور چاہے تو اپنے ذوق اور کیف کے مطابق دیر تک دعا کرتا رہے۔
Top