معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 687
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ وَهُوَ يَقُولُ : {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ} فَقَرَأَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ وَالرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ ، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ سِتَّ رَكَعَاتٍ ، كُلَّ ذَلِكَ يَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيَقْرَأُ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ ، فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ ، وَهُوَ يَقُولُ : « اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا ، وَفِي لِسَانِي نُورًا ، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا ، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا ، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِي نُورًا ، وَمِنْ أَمَامِي نُورًا ، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا ، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا ، اللهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا » (رواه مسلم)
رسول اللہ ﷺ کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وه ایک رات رسول اللہ ﷺ کے پاس سوئے پس (وقت آ جانے پر تہجد کے لیے) رسول اللہ ﷺ اٹھے اور آپ ﷺ نے مسواک کی اور وضو کیا اور آپ ﷺ اس وقت (سورہ آل عمران کے آخر کی) یہ دعائیہ آیتیں تلاوت فرماتے تھے: إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ (ختم سورت تک) پھر آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں جن میں قیام اور رکوع سجدہ بہت طویل کیا، پھر آپ ﷺ بستر کی طرف واپس آئے اور (ذرا دیر کے لیے) سو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا سانس آواز کے ساتھ چلنے لگا، اس کے بعد آپ ﷺ نے تین دفعہ ایسا کیا (یعنی تین دفعہ ایسا کیا کہ ذرا دیر کے سونے کے بعد اٹھے مسواک کی، وضو فرمایا اور طویل قیام اور طویل رکوع و سجود کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں) اس طرح آپ ﷺ نے (پہلی دو رکعتوں کے علاوہ) چھ رکعتیں پڑھیں۔ اور ہر دفعہ اٹھ کر آپ ﷺ مسواک کرتے اور وضو فرماتے اور آل عمران کے آخر کی وہ آیتیں پڑھتےتھے، پھر آپ ﷺ نے تین رکعت نماز وتر پڑھی پھر مؤذن نے فجر کی اذان دی۔ تو آپ ﷺ نماز فجر کے لیے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ﷺ یہ دعا فرما رہے تھے اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا.... الخ (اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما، اور میری زبان میں نور پیدا فرما، اور میری سمع و بصر میں نور پیدا فرما، اور میرے پیچھے اور میرے آگے نور کر دے اور میرے اوپر اور میرے نیچے نور کر دے اے اللہ! مجھے نور عطا فرما دے۔ " (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ یہ حدیث صحیحین میں بھی اور دوسری کتابوں میں بھی کئی طریقوں سے روایت کی گئی ہے، اور بعض طرق میں اس سے زیادہ تفصیل ہے نیز بیان اور ترتیب میں بھی کچھ فرق ہے۔ مثلا ی کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ آل عمران کی آخری آیتیں آپ ﷺ نے سو کے اٹھ کر وضو فمانے سے پہلے پڑھیں۔ اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا نوری: اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا آپ ﷺ نے اس دن صبح کی نماز میں کی تھی۔ اسی طرح کا ایک فرق یہ ہے کہ دو دو رکعتیں پڑھ کے درمیان میں ذرا دیر کے لیے سو جانے کا ذکر جو اس روایت میں کیا گیا ہے دوسری روایات اس سے خالی ہیں۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ اس طرح ہر دو رکعت کے بعد دونا حضور ﷺ کی عام عادت مبارکہ نہیں تھی اس رات آپ ﷺ نے اتفاقا ایسا کیا ہو گا۔ اس روایت میں دو خفیف رکعتیں پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، بظاہر ان کا ذکر راوی کے بیان سے رہ گیا، اور اس کا قرینہ یہ بھی ہے کہ اسی حدیث کی دوسری روایتوں میں صراحۃ تیرہ رکعت پڑھنے کا ذکر ہے، اور اس روایت کے مطابق کل رکعتیں صرف گیارہ ہوتی ہیں، ان دونوں بیانوں میں تطبیق اسی طرح دی جا سکتی ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ اس کے راوی نے پہلی دو خفیف رکعتوں کا ذکر نہیں کیا ہے اور غالبا ان کو نماز تہجد سے خارج تحیۃ الوضو سمجھا ہے۔ واللہ اعلم۔ دعاء نوری جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے اس میں نو دعائیہ کلمے ہیں، بعض دوسری روایات میں ان سے زیادہ کلمات نقل کیے گئے ہیں۔ بڑی مبارک اور نورانی دعا ہے۔ حاصل اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ میرے قلب اور میرے قالب اور میری روح اور میرے جسم میں اور جسم کے ہر حصے میں اور میری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں نور پیدا فرما دے اور مجھے از سر تا پا نور بنا دے، اور میرے گرد و پیش اور اوپر نیچے ہر طرف نور ہی نور کر دے۔ قرآن مجید کی آیت " اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ " کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس دعا کا مقصد یہ ہو گا کہ میرا وجود اور گرد و پیش بس آ کے نور سے منور ہو جائے اور میرا ظاہر و باطن اور پورا ماحول بھی بس آپ کے رنگ میں رنگ جائے۔ صبغة الله ومن أحسن من الله صبغة
Top