معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 689
عَنْ أَبَىْ ذَرٍّ قَالَ : " قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ بِآيَةٍ ، وَالْآيَةُ {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} (رواه النسائى وابن ماجه)
رسول اللہ ﷺ کے تہجد کی بعض تفصیلات
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات کی نماز میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کر دی، اور وہ (سورہ مائدہ کے آخری رکوع کی) یہ آیت تھی۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ الاية. (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایک رات کو آپ ﷺ نماز تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی خاص حالت اور کیفیت میں اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ " إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ " یہ آیت اللہ تعالیٰ کے ایک پرجلال سوال کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معذرت اور عاجزانہ گزارش کا ایک جز ہے۔ سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسیحیوں پر حجت قائم کرنے کے لیے حضرت عیسیٰؑ سے سوال کریں گے کہ کیا تم نے اپنی امت سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھے اور میری ماں مریم کو بھی معبود اور خدا بنا لینا؟ حضرت عیسیٰؑ اس کے جواب میں ایسی بات سے اپنی قطعی برأت ظاہر کریں گے، اور عرض کریں گے کہ خداوندا! آپ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے آپ علام الغیوب ہیں آپ کو معلوم ہے کہ میں نے ان کو توحید ہی کی دعوت و تعلیم دی تھی، ان میں یہ شرک دنیا سے میرے جانے کے بعد آیا۔ اس کے بعد یہ آیت ہے اور یہی حضرت عیسیٰؑ کے جواب کا آخری جز ہے۔ " إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (مائدہ) " خداوند اگر تو ان کو (ان کے سنگین جرم کی وجہ سے) عذاب میں ڈالے تو یہ سب تیرے بندے ہیں (تجھے عذاب دینے کا پورا حق ہے) اور اگر تو ان کو معاف کر دے (تو یہ بھی تیرے بس میں ہے) بے شک تو غالب ہے حکمت والا ہے۔ (تیرا جو فیصلہ بھی ہو گا وہ کسی کے دباؤ سے اور مجبوری سے نہیں ہو گا، بلکہ اپنے ذاتی ارادے سے اور حکمت کے تقاضے سے ہو گا)۔ رات کی نماز میں صبح تک اسی ایک آیت کو پڑھتے رہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بعض شارحین نے لکھا ہے کہ اس آیت پر پہنچ کے غالبا آپ ﷺ کو اپنی امت کا خیال آ گیا جس کے بارے میں آپ ﷺ پر یہ بات منکشف ہو چکی تھی کہ اگلی امتوں کی طرح اس میں بھی عقیدہ اور عمل کا بہت کچھ فساد آئے گا، اور آپ ﷺ اسی کی میں عیسیٰ علیہ السلام کی یہ عاجزانہ اور دردمندانہ گزارش اللہ تعالیٰ کے حضور دہراتے رہے۔ واللہ اعلم۔
Top