معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 692
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى » (رواه مسلم)
چاشت یا اشراق کے نوافل
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے جوڑ جوڑ پر صبح کو صدقہ ہے۔ (یعنی صبح کو جب آدمی اس حالت سے اٹھتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء اور ان کے ہر جوڑ صحیح سلامت ہے تو اللہ کی اس نعمت کے شکریہ میں ہر جوڑ کی طرف سے اس کو صدقہ یعنی کوئی نیکی اور ثواب کا کام کرنا چاہیے اور ایسے کاموں کی فہرست بہت وسیع ہے) پس ایک دفعہ سبحان الله کہنا بھی صدقہ ہے، اور الحمدالله کہنا بھی صدقہ ہے اور لَا اِلَهَ اِلَّا اللهُ کہنا بھی صدقہ ہے اور اللهُ اكبر کہنا بھی صدقہ ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے، اس شکر کی ادائگی کے لیے دو رکعتیں کافی ہیں جو آدمی چاشت کے وقت میں پڑھے۔ " (صحیح مسلم)

تشریح
جس طرح عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک کے طویل وقفہ میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے لیکن اس درمیان میں تہجد کی کچھ رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح فجر سے لے کر ظہر تک کے طویل وقفہ میں بھی کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے، مگر اس درمیان میں " صلوٰۃ الضحی " کے عنوان سے کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ جتنی ہو سکیں نفلی رکعتیں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، اگر یہ رکعتیں طلوع آفتاب کے تھوڑی ہی دیر کے بعد پڑھی جائیں تو ان کو چاشت کہا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ان کی حکمت بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ: " دن (جو اہل عرب کے نزدیک صبح سے یعنی فجر کے وقت سے شروع ہو جاتا ہے اور جو چار چوتھائیوحں میں تقسیم ہے جن کو چار پہر کہتے ہیں) حکمت الٰہی کا تقاضا ہوا کہ دن کے ان چار پہروں میں سے کوئی پہر بھی نماز سے خالی نہ رہے، اس لئے پہلے پہر کے شروع میں نماز فجر فرض کی گئی اور تیسرے اور چوتھے پہر میں ظہر وہ عصر اور دوسرا پہر جو عوام الناس کی معاشی مشغولیتوں کی رعایت سے فرض نماز سے خالی رکھا گیا تھا اس میں نفل اور مستحب کے طور پر یہ " صلوٰۃ الضحیٰ " (نماز چاشت) مقرر کر دی گئی ہے، اور اس کے فضائل و برکات بیان کر کر کے اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ جو بندگانِ خدا اپنے مشاغل سے وقت نکال کر اس وقت میں چند رکعتیں پڑھ سکیں وہ یہ سعادت حاصل کریں ..... پھر یہ " صلوٰۃ الضحیٰ " کم سے کم دو رکعت ہے اور اس سے زیادہ نفع بخش چار رکعت، اور اسے سے بھی افضل آٹھ رکعت "۔ (حجۃ اللہ البالغہ) اس تمہید کے بعد صلوۃ الضحی سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں: تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اپنے ہر جوڑ کی طرف سے شکرانہ کا جو صدقہ ہر روز صبخ کو ادا کرنا چاہیے چاشت کی دو رکعتیں پڑھنے سے ہو پوری طرح ادا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس مختصر شکرانہ کو اس کے ہر جوڑ کی طرف سے قبول فرما لیتا ہے، اور غالبا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جس میں انسان کے سارے اعضاء اور اس کے تمام جوڑ اور اس کا ظاہر و باطن سب ہی شریک رہتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top