معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 703
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ : " يَا عَبَّاسُ ، يَا عَمَّاهُ ، أَلَا أُعْطِيكَ ، أَلَا أَمْنَحُكَ ، أَلَا أُخْبِرُكَ ، أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ ، إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ ، قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ ، صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ ، سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ : أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً ، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَأَنْتَ قَائِمٌ ، قُلْتَ : سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ، خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً ، ثُمَّ تَرْكَعُ ، فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا ، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا ، ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا ، فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا ، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ، ثُمَّ تَسْجُدُ ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا ، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا ، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ تَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ ، إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً فَافْعَلْ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ ، فَفِي عُمُرِكَ مَرَّةً " ، (رواه ابوداؤد وابن مانه والبيهقى فى الدعوات الكبير وروى الترمذى عن ابي رافع نحوه)
صلوٰۃ التسبیح
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا: اے عباس! اے میرے محترم چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گراں قدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کے دس کام اور آپ کی دس خدمتیں کروں (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرما دے گا اگلے بھی اور پچھلےبھی، صغیرہ بھی اور کبیرہ بھی، ڈھکے چھپے بھی اور اعلانیہ ہونے والے بھی، (وہ عمل صلوٰۃ التسبیح ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے) آپ چار رکعت نماز پڑھیں، اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت پڑھیں، پھر جب آپ پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ دفعہ کہیں سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ پھر اس کے بعد رکوع کریں، اور رکوع میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ پڑھیں، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر سجدہ میں چلے جائیں اور اس میں یہ کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر سجدہ سے اٹھ کر جلسہ میں یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدے کے بعد بھی (کھڑے ہونے سے پہلے) یہ کلمہ دس دفعہ کہیں، چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں اور اس ترتیب سے ہر رکعت میں پچھتر دفعہ کہیں۔ (میرے چچا) اگر آپ سے ہو سکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں، اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں، اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ پڑھ ہی لیں۔ (سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
کتب حدیث میں صلوٰۃ التسبیح کی تعلیم و تلقین رسول اللہ ﷺ سے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کی گئی ہے۔ امام ترمذی نے رسول اللہ ﷺ کے خادم اور آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع کی روایت اپنی سند سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو اور فضل بن عباس نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب " الخصال المفكرة " میں ابن الجوزی کا رد کرتے ہوئے " صلوٰۃ التسبیح " کی روایات اور ان کی سندی حیثیت پر تفصیل سے کلام کیا ہے اور ان کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث کم از کم " حسن " یعنی صحت کے لحاظ سے دوم درجہ کی ضرور ہے، اور بعض تابعین اور تبع تابعین حضرات سے (جن میں عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر امام بھی شامل ہیں) صلوٰۃ التسبیح کا پڑھنا اور اس کی فضیلت بیان کر کے لوگوں کو اس کی ترغیب دینا بھی ثابت ہے اور یہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی " صلوٰۃ التسبیح " کی تلقین اور ترغیب کی حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت تھی، اور زمانہ ما بعد میں تو یہ صلوٰۃ التسبیح اکثر صالحین امت کا معمول رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس نماز کے بارے میں ایک خاص نکتہ لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نمازوں میں (خاص کر نفلی نمازوں میں) بہت سے اذکار اور دعا میں ثابت ہیں۔ اللہ کے جو بندے ان اذکار اور دعاؤں پر ایسے قابو یافتہ نہیں ہیں کہ اپنی نمازوں میں ان کو پوری طرح شامل کر سکیں اور اس وجہ سے ان اذکار و دعوات والی کامل ترین نماز سے وہ بے نصیب رہتے ہیں ان کے لیے یہی صلوٰۃ التسبیح اس کامل ترین نماز کے قائم مقام ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس میں اللہ کے ذکر اور تسبیح و تحمید کی بہت بڑی مقدار شامل کر دی گئی ہے، او ر چونکہ ایک ہی کلمہ بار بار پڑھا جاتا ہے اس لیے عوام کے لیے بھی اس نماز کا پڑھنا مشکل نہیں ہے۔ صلوٰۃ التسبیح کا جو طریقہ اور اس کی جو ترتیب امام ترمذی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے روایت کی ہے اس میں دوسری عام نمازوں کی طرح قرأت سے پہلے ثناء یعنی سبحانك اللهم وبحمدك اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى پڑھنے کا بھی ذکر ہے اور ہر رکعت میں قیام میں قرأت سے پہلے کلمہ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ پندرہ دفعہ، اور قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے یہی کلمہ دس دفعہ پڑھنے کا ذکر بھی ہے، اسی طرح ہر رکعت کے قیام میں یہ کلمہ پچیس دفعہ ہو جائے گا اور اس طریقہ میں دوسرے سجدے کے بعد یہ کلمہ کسی رکعت میں بھی نہیں پڑھا جائے گا، اس طرح اس طریقے کی ہر رکعت میں بھی اس کلمہ کی مجموعی تعداد پچھتر اور چار رکعتوں کی مجموعی تعداد تین ہو ہی ہو گی۔ بہرحال صلوٰۃ التسبیح کے یہ دونوں ہی طریقے منقول اور معمول ہیں۔ پڑھنے والے کے لیے گنجائش ہے جس طرح چاہے پڑھے۔ " صلوٰۃ التسبیح " کی تاثیر اور برکت نماز کے ذریعہ گنوہوں کے معاف ہونے اور معصیات کے گندے اثرات کے زائل ہونے کا ذکر تو اصلی طور پر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود: ۱۱۴: ۱۱) لیکن اس تاثیر میں " صلوٰۃ التسبیح " کا جو خاص مقام ار درجہ ہے وہ حضرت عبداللہ بن عباس کی مندرجہ بالا حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر کر دیا گیا ہے، یعنی یہ اس کی برکت سے بندہ کے اگلے، پچھلے، پرانے، نئے، دانستہ، نادانستہ، صغیرہ، کبیرہ، پوشیدہ، علانیہ، سارے ہی گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ اور سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی (عبداللہ بن عمروؓ) کو " صلوٰۃ التسبیح " کی تلقین کرنے کے بعد ان سے فرمایا: فَإِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَعْظَمَ أَهْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَكَ بِذَلِكَ " تم اگر بالفرض دنیا کے سب سے بڑے گناہ گار ہو گے تو بھی اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرما دے گا " اللہ تعالیٰ محرومی سے حفاظت فرمائے اور اپنے ان خوش نصیب بندوں میں سے کر دے جو رحمت و مغفرت کے ایسے اعلانات کو نس کر ان سے فائدہ اٹھاتے اور ان کا حق ادا کرتے ہیں۔
Top