معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 730
عَنْ يَزِيْدِ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ ، قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ ، صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ ، أَوْ أَضْحَى ، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ ، فَقَالَ : « إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ » (رواه ابوداؤد)
عیدین کی نماز کا وقت
یزید بن خمیر رحبی باتعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر ؓ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے دن نماز عید پڑھنے کے لئے لوگوں کے ساتھ عیدگاہ تشریف لائے (امام کے آنے میں دیر ہوئی) تو آپ ﷺ نے امام کی اس تاخیر کو منکر بتایا (اور اس کی مذمت کی) اور فرمایا کہ اس وقت تو ہم (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) نماز پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے (راوی کہتے ہیں) اور یہ نوافل کا وقت تھا (نوافل سے مراود غالبا چاشت کے نوافل ہیں)۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
عبداللہ بن بسر صحابی ؓ نے شام میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہیں۔ ۸۸؁ھ میں " حمص " میں ان کا انتقال ہوا۔ غالبا وہیں کا یہ واقعہ ہے کہ نماز عید میں امام کی تاخیر پر آپ نے نکیر فرمائی اور بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم لوگ نماز عید سویرا پڑھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کے وقت کے بارے میں سب سے زیادہ واضح حدیث وہ ہے جو حافظ بن حجر نے " تلخیص الحبیر " میں احمد بن حسن البناء کی کتاب الاضاحی کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے صحابی جندب ؓ کی روایت سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔ " كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَالشَّمْسُ عَلَى قِيدَ رُمْحَيْنِ وَالْاَضْحَى عَلَى قِيدَ رُمْحٍ " . " رسول اللہ ﷺ عید الفطر کی نماز ہم لوگوں کو ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر دو نیزے کے بلند ہوتا تھا اور عید الاضحیٰ کی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر ایک نیزہ کے ہوتا تھا "۔ ہمارے زمانے میں بہت مقامات پر عیدین کی نماز بہت تاخیر سے پڑھی جاتی ہے، یہ بلا شبہ خلاف سنت ہے۔
Top