معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 731
عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، « أَنَّ رَكْبًا جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْهَدُونَ أَنَّهُمْ رَأَوُا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُفْطِرُوا ، وَإِذَا أَصْبَحُوا أَنْ يَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ » (رواه ابوداؤد والنسائى)
عیدین کی نماز کا وقت
حضرت انس ؓ کے صاحبزادے ابو عمیر سے روایت ہے وہ اپنے متعدد چچوں سے نقل کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کرامؓ میں سے تھے کہ ایک دفعہ ایک قافلہ (کہیں باہر سے) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انہوں نے شہادت دی کہ کل (راستہ میں) انہوں نے چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزے کھول دیں اور کل جب صبح ہو تو نماز عید ادا کرنے کے لئے عیدگاہ پہنچیں۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک دفعہ رمضان کی ۲۹ تاریخ کو چاند نظر نہیں آیا تو قاعدے کے مطابق اگلے دن سب لوگوں نے روزہ رکھا لیکن دن ہی میں سے کسی وقت باہر کا کوئی قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا اور ان لوگوں نے گواہی دی کہ ہم نے کل شام چاند دیکھا تھا تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کی گواہی قبول فرما کر لوگوں کو روزے کھولنے کا حکم دے دیا اور نماز عید کے لئے فرمایا کہ کل صبح پڑھی جائے گی۔ بظاہر یہ قافلہ دن کو دیر سے مدینہ پہنچا تھا اور نماز کا وقت نکل چکا تھا۔ شرعی مسئلہ بھی یہی ہے کہ اگر چاند کی رویت ایسے وقت معلوم ہو کہ نماز عید اپنے وقت پر نہ پڑھی جا سکتی ہو تو پھر اگلے دن صبح ہی کو پڑھی جائے گی۔
Top