معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 752
عَنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ : كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ، فَقَالَ النَّاسُ : كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا ، وَادْعُوا اللَّهَ » (رواه البخارى ومسلم)
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خاص اس دن جس دن آپ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا سورج گرہن کو گہن لگا۔ تو بعض لوگوں نے کہا کہ سورج کو یہ گہن ابراہیم کے انتقال فرما جانے کی وجہ سے لگا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ (بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کی نشانیوں میں سے ہے) تم ایسا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں نماز پڑھو اور اس سے خوب دعا کرو۔

تشریح
جمعہ اور عیدین کی نمازیں (جن سے متعلق احادیث صفحات ما سبق میں درج کی گئی ہیں) وہ اجتماعی نمازیں ہیں، جن کا دن یا تاریخ مقرر اور معلوم ہے، ان کے علاوہ دو نمازیں اور بھی ہیں جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں، لیکن نہ ان کا دن مقرر ہے نہ تاریخ۔ ان میں ایک " صلوٰۃ کسوف " ہے جو سورج کے گہن میں آ جانے کے وقت پڑھی جاتی ہے، اور دوسرے " صلوٰۃ استسقا " جو کسی علاقہ میں سوکھا پڑنے یعنی بارش نہ ہونے کی صورت میں بارش کی دعا کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ نماز کسوف سورج یا چاند کا گہن میں آ جانا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کے جلال و جبروت کی ایک نشانیوں میں سے ہے جن کا کبھی کبھی ظہور ہوتا ہے اور جن کا حق ہے کہ جب ان کا ظہور ہو تو اللہ کے بندے عاجزی کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ٹھیک اس دن جس دن آپ ﷺ کے شیر خوار صاحبزادے ابراہیم (علی ابیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کا قریبا ڈیڑھ سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا (1) سورج کو گہن لگا۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ بڑے آدمیوں کی موت پر سورج کو گہن لگتا ہے، اور گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج کے گہن میں آ جانے سے اس توہم پرستی اور غلط عقیدہ کو تقویت پہنچ سکتی تھی، بلکہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگوں کی زبانوں پر یہی بات آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت غیر معمولی خشیت اور انتہائی فکر مندی کے ساتھ اللہ کے حضور میں جماعت سے دو رکعت نماز پڑھی، یہ نماز بھی غیر معمولی قسم کی تھی، آپ ﷺ نے اس میں بہت طویل قرأت کی اور قرأت کے دوران آپ ﷺ بار بار اللہ کے حضور جھک جاتے تھے (گویا رکوع میں چلے جاتے تھے) اور پھر کھڑے ہو کر قرأت کرنے لگتے تھے۔ اسی طرح اس نماز میں آپ ﷺ نے رکوع اور سجدے بھی بہت طویل کئے اور اثناء نماز میں دعا بھی بہت اہتمام اور ابتہال کے ساتھ کی، اس کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور اس میں خاص طور سے اس غلط خیال کی تردید کی کہ سورج یا چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی اصل بنیاد کوئی نہیں، یہ تو دراصل اللہ کی قدرت وسطوت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے، جب ایسی کسی نشانی کا ظہور ہو تو عاجزی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اس کی عبادت اور اس سے دعا کرنی چاہئے۔اس تمہید کے بعد " صلوٰۃ کسوف " سے متعلق چند احادیث ذیل میں پڑھیے: تشریح ..... حضرت مغیرہ بن شعبہ کی ایک حدیث میں بہت اختصار ہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی نماز پڑھنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔ دوسری روایات میں آپ ﷺ کی نماز اور اس کی خاص کیفیت کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
Top