معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 762
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ » (رواه البخارى ومسلم)
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کو اللہ سے ملنا اور اس کے حضور میں حاضر ہونا محبوب ہو اللہ کو اس سے ملنا محبوب ہے، اور جس کو اللہ سے ملنا نا گوار ہو، اللہ کو اس سے ملنا ناگوار ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عبادہ بن صامت کی اسی روایت میں آگے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ بات ارشاد فرمائی تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ یا ازواج مطہرات میں سے کسی اور نے عرض کیا: حضرت (ﷺ) ہمارا حال تو یہ ہے کہ: اِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ " ہم موت سے گھبراتے ہیں اور موت ہم کو محبوب اور گوارا نہیں ہے " آپ ﷺ نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ میرا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کو خود موت محبوب ہونی چاہیے، موت کا محبوب نہ ہونا تو ایک طبعی اور فطری سی بات ہے، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی جو رضا اور اس کا جو فضل و کرم مؤمن پر ہونے والا ہے جو موت کے وقت اس پر منکشف کر دیا جاتا ہے وہ آدمی کو محبوب اور اس کا شوق ہونا چاہئے اور جس بندے کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے ملنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے، اور اس کے بر عکس جو بندہ اپنی بداعمالی اور بدبختی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے، موت کے وقت اس کے اس برے انجام پر اس کو مطلع کر دیا جاتا ہے اس لئے وہ اللہ کے حضور میں جانا نہیں چاہتا اور اس کو اپنے حق میں سخت مصیبت سمجھتا ےہے تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ بھی ملنا نہیں چاہتا اور اس سے نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تشریح کی بناء پر لقاء اللہ سے مراد یہاں موت نہیں ہے بلکہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کا جو معاملہ بندے کے ساتھ ہونے والا ہے وہ مراد ہے، چنانچہ اسی مضمون کی جو حدیث خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے اس کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کی یہ تصریح ہے کہ: والموت قبل لقاء الله (یعنی موت لقاء اللہ سے پہلے ہے)۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے کہ جب اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کا وقت بالکل قریب آتا ہے تو بہیمیت اور مادیت کے غلیظ پردے چاک ہونے لگتے ہیں، اور روح کے لئے عالم ملکوت کا ظہور ہونے لگتا ہے، اس وقت عالم غیب اور عالم آخرت کی وہ حقیقتیں گویا مشاہدے میں آنے لگتی ہیں جن کی اطلاع انبیاء علیہم السلام نے دی ہے، اس وقت اس صاحب ایمان بندے کی روح جس نے ہمیشہ بہیمی تقاضوں کو دبایا اور ملکی صفات کو غالب کرنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کے لطف و کرم کے نقشوں کا مشاہدہ کر کے اس کی مشتاق ہو جاتی ہے اور اس کا داعیہ اور شوق یہ ہوتا ہے کہ جلد سے جلد وہ اسی عالم میں اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پہنچ جائے اور اس کے برعکس جو منکر یا خدا فراموش اور نفس پرست بندہ ہمیشہ اپنے بہیمی تقاضوں میں غرق اور دنیوی لذتوں میں مست رہا، اس کی روح موت کے وقت جب اپنے مستقبل کے مہیب نقشے دیکھتی ہے تو کسی طرح دنیا سے نکلنا نہیں چاہتی۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ انہیں دونوں حالتوں کو " أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ " اور " كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ " سے تعبیر کیا گیا ہے، اور آگے أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُاور كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ کا مطلب بس اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی اور انعام اور غضب اور ثواب و عذاب ہے۔
Top