معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 763
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تُحْفَةُ الْمُؤْمِنِ الْمَوْتُ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: مؤمن کا تحفہ موت ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے موت طبعی طور پر کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں ہوتی، لیکن اللہ کے جن بندوں کو ایمان و یقین کی دولت نصیب ہے وہ موت کے بعد کے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور قرب خصوصی اور لذت دیدار پر نظر رکھتے ہوئے عقلی طور پر موت کے مشتاق ہوتے ہیں، بلکل اس طرح جس طرح کہ آنکھ میں نشتر لگوانا طبعی طور پر کسی کو بھی مرغوب اور گوارا نہیں ہو سکتا لیکن اس امید پر کہ آپریشن سے آنکھ میں روشنی آ جائے گی، عقلی طور پر وہ محبوب و مطلوب ہوتا اور ڈاکٹر کو فیس دے کر آنکھ میں نشتر لگوایا جاتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ آپریشن کے نتیجہ میں آنکھ کا روشن ہو جانا قطعی اور یقینی نہیں ہے، آپریشن ناکامیاب بھی ہو جاتا ہے، لیکن صاحب ایمان و یقین کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا قرب اور لذت و دیدار بالکل یقینی ہے، اسی لحاظ سے اصحاب ایمان و یقین کے لئے موت محبوب ترین تحفہ ہے۔ سمجھنے کے لئے بلا تشبیہ اس کی دوسری ایک مثال یہ ہے کہ ہر لڑکی کے لئے شادی اور ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے ہاں جانا اس حیثیت سے بڑے رنج اور صدمہ کی بات ہوتی ہے کہ ماں باپ کی شفقت اور گھر کا ماحول اس سے چھوٹ جائے گا اور اس کی آئندہ زندگی ایک نئے گھر اور نئے خاندان میں گزرے گی، لیکن شادی سے مستقبل کے بارے میں جو خاص توقعات ہوتی ہیں جن کے لئے شادی کی جاتی ہے ان کی وجہ سے بلا شبہ شادی کا شوق اور ارمان بھی ہوتا ہے۔ بس اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح ایمانی تعلق رکھنے والے بندوں کا معاملہ ہے۔ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی جن الطاف و عنایات اور جس طرح قرب خصوصی کی ان کو توقع ہوتی ہے اسی کی وجہ سے ان کو موت کا اشتیاق اور ارمان ہوتا ہے!
Top