معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 769
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ ، لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ ، أَوْ فِي مَالِهِ ، أَوْ فِي وَلَدِهِ ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يُبْلِغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ » (رواه احمد وابوداؤد)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
محمد بن خالد سلمی اپنے والد سے روایت ہیں اور وہ ان کے دادا سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بندہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے نہیں پا سکتا، تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی جسمانی یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے، پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے، یہاں تک کہ (ان مصائب و تکالیف اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے) اس بلند مقام پر پہنچا دیتا ہے جو اس کے لئے پہلے سے طے ہو چکا تھا۔

تشریح
اللہ تعالیٰ مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے، وہ اگر چاہے تو بغیر کسی عمل اور استحقاق کے بھی اپنے کسی بندے کو بلند سے بلند درجہ عطا فرما سکتا ہے، لیکن اس کی حکمت اور صفت عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بندے اپنے اعمال اور احوال کی وجہ سے جس درجہ کے مستحق ہوں ان کو اسی درجہ پر رکھا جائے، اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور اور معاملہ ہے کہ جب وہ کسی بندے کے لئے اس کی کوئی ادا پسند کر کے یا خود اس کی یا اس کے حق میں کسی دوسرے بندے کی دعا قبول کر کے اس کو ایسا بلند درجہ عطا فرمانے کا فیصلہ کرتا ہے جس کا وہ اپنے اعمال کی وجہ سے مستحق نہیں ہوتا تو اعمال کی اس کمی کو مصائب حوادث اور صبر کی توفیق سے پورا کر دیتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top