معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 792
عَنْ أَنَسِ قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفٍ القَيْنِ ، وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ ، فَقَبَّلَهُ ، وَشَمَّهُ ، ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ ، فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ : « يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ » ، ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ ، وَالقَلْبَ يَحْزَنُ ، وَلاَ نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا ، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ » (رواه البخارى ومسلم)
آنکھ کے آنسو اور دل کا صدمہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ابوسیف آہنگر کے گھر گئے۔ یہ ابو سیف رسول اللہ ﷺ کے فرزند ابراہیم (علیہ وعلی ابیہ السلام) کی دایہ اور مرضعہ (خولہ بنت المنذر) کے شوہر تھے۔ (اور ابراہیم اس وقت کے رواج کے مطابق اپنی دایہ کے گھر ہی رہتے تھے) رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاسحبزادے ابراہیم کو اٹھا لیا اور چوما اور (ان کے رخسار) پر ناک رکھی (جیسا کہ بچوں کو پیار کرتے وقت کیا جاتا ہے) اس کے بعد پھر ایک دفعہ (ان صاحبزادے ابراہیم کی آخری بیماری میں) ہم وہاں گئے۔ ابراہیم جان دے رہے تھے (یعنی ان کا بلکل آخری وقت تھا)۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف! جو ناواقفی سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس قسم کی چیزوں سے متاثر نہں ہو سکتے) انہوں نے کہا: یا رسول اللہ (ﷺ)! آپ ﷺ کی بھی یہ حالت؟: آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ (کوئی بری بات اور بری حالت نہیں بلکہ یہ) شفقت اور درد مندی ہے۔ پھر دوبارہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل مغموم ہے اور زبان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ کو پسند ہو (یعنی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی کا ہمیں صدمہ ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا قلب مبارک رنج و غم والے حوادث سے رنجیدہ و غمگین ہوتا تھا اور اس حالت میں آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بھی بہتے تھے، اور بلا شبہ یہی انسانیت کا کمال ہے کہ خوشی اور مسرت والی باتوں سے مسرت ہو اور رنج و غم کے موجبات سے رنج و غم ہو، اگر کسی کا یہ حال نہ ہو تو یہ اس کا نقص ہے، کمال نہیں ہے۔ امام ربانی شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ: " ایک زمانہ میں میرے دل کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اسباب مسرت سے مجھے مسرت نہیں ہوتی تھی، اور موجبات غم سے غم نہیں ہوتا تھا۔ میں اس زمانہ میں سنت نبوی ﷺ کے اتباع کی نیت سے ایسے مواقع پر مسرت اور رنج و غم کو بہ تکلف اپنے پر طاری کیا کرتا تھا، اس کے بعد خدا کے فضل سے وہ کیفیت زائل ہو گئی، اور اب میرا یہ حال ہے کہ رنج و غم پہنچانے والے حوادث سے مجھے طبعی رنج و غم ہوتا ہے اور اسی طرح خوشی اور مسرت والی باتوں سے مجھے طبعی خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ "
Top