معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 798
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ ، فَقَالَ : « اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا ، أَوْ خَمْسًا ، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ ، إِنْ رَأَيْتُنَّ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ ، وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا ، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ ، فَآذِنَّنِي » قَالَتْ : فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ ، فَقَالَ : « أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ » وَفىْ رِوَايَةٍ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا ، أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا ، وَمَوَاضِعِ الوُضُوءِ مِنْهَا. (رواه البخارى ومسلم)
میت کا غسل و کفن
حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک فوت شدہ صاحبزادی کو ہم غسل دے رہے تھے، اس وقت رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے اور ہم سے فرمایا کہ: تم اس کو بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دئیے ہوئے پانی سے تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ غسل دیجو، اور آخری دفعہ کافور بھی مل کیجو، پھر جب تم غسل دے چکو تو مجھے خبر دیجو۔ (ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ) جب ہم غسل دے کر فارغ ہو گئے تو ہم نے آپ ﷺ کو اطلاع دے دی تو آپ ﷺ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینک دیا اور فرمایا کہ: " سب سے پہلے یہ اسے پہنا دو "۔ اور اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس کو طاق دفعہ غسل دیجو۔ تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور داہنے اعضاء سے اور وضو کے مقامات سے شروع کیجو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اللہ کا جو بندہ اس دنیا سے رخصت ہو کر موت کے راستے سے دار آخرت کی طرف جاتا ہے اسلامی شریعت نے اس کو اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت کرنے کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے، جو نہایت ہی پاکیزہ، انتہائی خدا پرستانہ اور نہایت ہمدردانہ اور شریفانہ طریقہ ہے۔ حکم ہے کہ پہلے میت کو ٹھیک اس طرح غسل دیا جائے جس طرح کوئی زندہ آدمی پاکی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے نہاتا ہے۔ اس غسل میں پاکی اور صفائی کے علاوہ غسل کے آداب کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے۔ غسل کے پانی میں وہ چیزیں شامل کی جائیں جو میل کچیل صاف کرنے کے لئے لوگ زندگی میں بھی نہانے میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آخر میں کافور جیسی خوشبو بھی پانی میں شامل کی جائے تا کہ میت کا جسم پاک صاف ہونے کے علاوہ معطر بھی ہو جائے پھر اچھے صاف ستھرے کپڑوں میں دفنایا جائے، لیکن اس سلسلہ میں اسراف سے بھی کام نہ لیا جائے اس کے بعد جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی جائے جس میں میت کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا اہتمام اور خلوص سے کی جائے۔ پھر رخصت کرنے کے لئے قبرستان تک جایا جائے، پھر اکرام و احترام کے ساتھ بظاہر قبر کے حوالے اور فی الحقیقت اللہ کی رحمت کے سپرد کر دیا جائے اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ ارشادات اور آپ ﷺ کی ہدایات ذیل میں پڑھئے۔ اس حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جن صاحبزادی کو غسل دینے کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی زینب تھیں، جو ابو العاص بن الربیع کے نکاح میں تھیں، ان کی وفات ۸؁ھ کے اوائل میں ہوئی تھی، اور ام عطیہ انصاریہ ؓ جو اس حدیث کی راوی ہیں اور جو اس موقع پر غسل دینے والیوں میں تھیں ممتاز صحابیات میں سے ہیں، اس قسم کی خدمتوں میں یہ پیش پیش رہتی تھیں، خاص کر مرنے والی خواتین کو غسل دینا ان کو خوب آتا تھا۔ ابن سیرین تابعی جیسے جلیل القدر امام کا بیان ہے کہ میں نے غسل میت انہی سے سیکھا۔ اس حدیث میں بیری کے پتوں کے ساتھ ابالے ہوئے پانی سے غسل دینے کا ذکر ہے ایسا پانی جسم سے میل وغیرہ کو خوب صاف کرتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں جس مقصد کے لئے نہانے میں طرح طرح کے صابون استعمال کئے جاتے ہیں اس زمانہ میں اس مقصد کے لئے بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دیا ہوا پانی استعمال کیا جاتا تھا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ میت کے جسم سے ہر قسم کے میل کچیل کی صفائی کا پورا اہتمام کیا جائے۔ اس لئے حکم فرمایا کہ غسل کم سے کم تین دفعہ دیا جائے اور اگر اس سے زیادہ مناسب سمجھا جائے تو چونکہ طاق عدد اللہ کو محبوب ہے، اس لئے اس کا لحاظ بہرحال رکھا جائے۔ یعنی تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اس سے بھی زیادہ سات دفعہ غسل دیا جائے اور آخری دفعہ کافور بھی پانی میں ملا لیا جائے جو نہایت مہک دار اور دیرپا خوشبو ہے۔ یہ سب میت کا اعزاز و اکرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر صاحبزادی کے لئے جس اہتمام سے اپنا تہبند مبارک دیا (اور بعض روایات میں تصریح ہے کہ جب آپ ﷺ کو غسل مکمل ہو جانے کی اطلاع دی گئی اس وقت آپ نے اپنے جسم اقدس سے نکال کر وہ تہبند دیا) اور تاکید فرمائی کہ اس کو شعار (یعنی سب سے اندر کا لباس) بنا دو، اس سے علماء کرام نے سمجھا ہے کہ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کے لباس وغیرہ کا تبرک کے طور پر اس طرح کا استعمال درست ہے اور اس سے نفع کی امید ہے۔ ہاں ان چیزوں میں غلو اور ان کے بھروسہ پر عمل سے غافل ہو جانا یقیناً گمراہی ہے۔ اس روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان صاحبزادی کو کیسے کپڑوں میں کفیایا گیا، لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں جوزقی کی تخریج سے حضرت ام عطیہ ؓ کی اس حدیث کے سلسلہ میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: فَكَفَّنَهَا فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ وَخَمَرْنَاهَا كَمَا يُخْمَرُ الْحَىُّ ہم نے ان صاحبزادی کو پانچ کپڑوں میں کفنایا اور خمار (اوڑھنی) بھی اڑھائی، جس طرح زندوں کو اڑھائی جاتی ہے۔ (اس بناء پر وعورتوں کے لئے کفن میں پانچ کپڑے ہی مسنون کہے گئے ہیں)۔
Top