معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 820
عَنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : « كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ ، فَزُورُوهَا؛ فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا ، وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ » (رواه ابن ماجة)
زیارت قبور
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کر دیا تھا، اب (اجازت دیتا ہوں کہ) تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو، کیوں کہ (اس کا یہ فائدہ ہے کہ) اس سے دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر پیدا ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
شروع شروع میں جب تک کہ توحید پوری طرح عام مسلمانوں کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئیتھی اور انہیں شرک اور جاہلیت سے نکلے ہوئے تھوڑا ہی زمانہ ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر جانے سے منع فرما دیا تھا، کیوں کہ ان سے ان لوگوں کے شرک اور قبر پرستی میں ملوث ہو جانے کا خطرہ تھا۔ پھر جب امت کا توحیدی مزاج پختہ ہو گیا، اور ہر قسم کے جلی اور خفی شرک سے دلوں میں نفرت بھر گئی اور قبروں پر جانے کی اجازت دے دی اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر دلوں میں پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔ اس حدیث سے شریعت کا یہ بنیادی اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی مام میں خیر اور نفع کا کوئی پہلو ہے اور اسی کے ساتھ کسی بڑے ضرر کا بھی اندیشہ ہے تو اس اندیشہ کی وجہ سے خیر کے پہلو سے صرف نظر کر کے اس کی ممانعت کر دی جائے گی، لیکن اگر کسی وقت حالات میں ایسی تبدیلی ہو کہ ضرر کا وہ اندیشہ باقی نہ رہے تو پھر اس کی اجازت دے دی جائے گی۔
Top