معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 826
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ‏‏‏‏ قَالَ : ‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ "مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ ، ‏‏‏‏‏‏مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ (يَعْنِي شِدْقَيْهِ) ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا : ‏‏‏‏ وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ الآية. (رواه البخارى)
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا۔ جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں۔ (جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جائیں، وہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائے گا) پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال و دولت میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال و دولت ان کے حق میں بہتر ہے۔ بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر ہے اور شر ہے۔ قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں میں انہوں نے بخل کیا۔ " (اور جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی)۔ (اور جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں قریب قریب یہی مضمون لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے بھی مروی ہے)۔

تشریح
قرآن و حدیث میں خاص خاص اعمال کی جو مخصوص جزائیں یا سزائیں بیان کی گئی ییں ان اعمال اور ان کی ان جزاؤں اور سزاؤں میں ہمیشہ کوئی خاص مناسبت ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ ایسی واضح ہوتی ہے جس کا سمجھنا ہم جیسے عوام کے لیے بھی زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور کبھی کبھی وہ ایسی دقیق اور خفی مناسبت ہوتی ہے جس کو صرف خواص عرفاء اور امت کے اذکیاء ہی سمجھ سکتے ہیں..... اس حدیث میں زکوٰۃ نہ دینے کے گناہ کی جو خاص سزا بیان ہوئی ہے یعنی اس دولت کا ایک زہریلے ناگ کی شکل میں اس کے گلے میں لپٹ جانا اور اس کی دونوں باچھوں کو کاٹنا یقیناً اس گناہ اور اس کی اس سزا میں بھی ایک خاص مناسبت ہے یہ وہی لطیف مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس بخیل آدمی کی جو حب مال کی وجہ سے اپنی دولت سے چمٹا رہے اور خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ نہ کرے، کہتے ہیں کہ وہ اپنی دولت اور اپنے خزانے پہ سانپ بنا بیٹھا رہتا ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے بخیل و خسیس آدمی کبھی کبھی اس طرح کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ اس حدیث میں نیز آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں یوم القیمۃ کا جو لفظ ہے، اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دوزخ یا جنت کے فیصلے سے پہلے محشر میں ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی کی ایک دوسری میں (جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) زکوٰۃ ادانہ کرنے والے ایک خاص طبقہ کے اسی طرح کے اییک خاص عذاب کے بیان کے ساتھ آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں: ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا إِلَى النَّارِ اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتاب کے بعد بندوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد یہ آدمی یا جنت کی طرف چلا جائے گا یا دوزخ کی طرف (جیسا بھی اس کے حق میں فیصلہ ہو گا)۔ یعنی جتنا عذاب و حساب وہ آخری فیصلہ سے پہلے اٹھا چکے گا اگر اس کی بد اعمالی کی سزا کے لیے اللہ کے نزدیک وہی کافی ہو گا تو اس کے بعد اس کی چھٹی اور نجات مل جائے گی اور وہ جنت میں بھیج دیا جائے گا، اور اگر محشر کے اس عذاب سے اس کا حساب بے باق نہ ہوا ہو گا تو مزید سزا اور عذاب پانے کے لیے وہ دوزخ میں بھی بھیجا جائے گا۔ اللهم احفظنا واغفر لنا ولا تعذبنا۔ قیامت اور جنت دوزخ کے عذاب و ثواب کے بارے میں جو اصولی باتیں معارف الحدیث جلد اول میں لکھی جا چکی ہیں جن حضرات کی نظر سے نہ گزری ہوں وہ ان کا ضرور مطالعہ کریں، ان چیزوں کے بارے میں جو ذہنی الجھنیں بہت سوں کے لیے خلجان کا باعث بنتی ہیں، انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے دور ہو جائیں گی۔
Top