معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 847
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ سَأَلَ ، وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ ، جَاءَتْ مَسْأَلَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ ، أَوْ كُدُوحٌ » ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ « خَمْسُونَ دِرْهَمًا ، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ » (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجه والدارمى)
کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ایسی حالت میں لوگوں سے سوال کرے کہ اس کے پاس " مَا يُغْنِيهِ " ہو (یعنی اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو، اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہ رہے) تو وہ قیامت کے دن محشر میں اس حال میں آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں ایک گھاؤ کی صورت میں ہو گا (خموش) خدوش، کدوخ۔ یہ تینوں لفظ قریب المعنی ہیں، ان کے معنی زخم کے ہیں۔ غالباً راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اصل حدیث میں ان تینوں میں سے کون سا لفظ تھا .... آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ (کا یہ ارشاد سن کر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! وہ کتنی مقدار ہے جس کو آپ نے " مَا يُغْنِيهِ " فرمایا (اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہیں رہتا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: پچاس درہم، یا ان کی قیمت کا سونا۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس درہم یا اس کے قریب مالیت موجود ہو، جسے وہ اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتا ہو اور کسی کاروبار میں لگا سکتا ہو اس کے لیے سوال کرنا گناہ ہے، اور ایسا شخص قیامت میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر اس ناجائز سوال کی وجہ سے بدنما داغ ہو گا۔ اس حدیث میں اس غنا کا معیار جس کے ہوتے ہوئے سوال جائز نہیں، پچاس درہم کی مالیت کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کی مالیت کا بھی ذکر ہے ..... اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے لیکن سنن ابی داؤد کی ایک اور حدیث میں جو سہل بن الحنظلیہ سے مروی ہے مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا: ما الغنى الذى تسعى معه المسئلة (غنا کی وہ کیا مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: قدر ما يغديه ويعشيه (اتنا کہ اس سے دن کا کھانا کھا سکے اور رات کا کھانا کھا سکے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایک دن کے کھانے بھر بھی ہے تو اس کو سوال کرنا درست نہیں۔ وہ غنا جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس کا معیار تو متعین ہے اور اس کے متعلق حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں، لیکن وہ غنا جس کے حاصل ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ نے مختلف اوقات میں اس کے معیار مختلف بیان فرمائے ہیں۔ شارحین حدیث نے اس اختلاف کی توجیہ کئی طرح سے کی ہے۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے اقرب بات یہ ہے کہ یہ اختلاف اشخاص اور احوال کے لحاظ سے ہے۔ یعنی بعض حالات اور اشخاص ایسے ہو سکتے ہیں کہ تھوڑا بہت اثاثہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے لیے سوال کی گنجائش ہو سکتی ہے، لیکن اگر یہ اثاثہ (۴۰، ۵۰) درہم کی مالیت کو معیار بتایا گیا ہے ان میں رخصت اور فتوے کا بیان ہے، اور جن میں ایک دن کے کھانے بھر ہونے کی صورت میں بھی سوال سے منع کیا گیا ہے وہ عزیمت اور تقوے کا مقام ہے۔ واللہ اعلم۔
Top