معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 867
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ : يَا نَبِىَّ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الصَّدَقَةَ مَا هِيَ؟ قَالَ : "أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ ، وَعِنْدَ اللهِ مَزِيدٌ " (رواه احمد)
صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آئی بلکہ برکت ہوتی ہے
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ: حضرت (ﷺ)! بتائیے کہ صدقہ کیا ہے؟ (یعنی اللہ کی طرف سے اس کا کیا اجر ملنے والا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: چند در چند (یعنی جتنا کوئی اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اس کا کئی گنا اس کو ملے گا) اور اللہ کے ہاں بہت ہے۔ (مسند احمد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی راہ میں جتنا صدقہ کرے گا اس کو اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ دوسری بعض احادیث میں دس گنے سے سات سو گنے تک کا ذکر ہے اور یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا۔ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ اس کا خزانہ لا انتہا ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ صدقہ کے عوض میں کئی گنا تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں عطا فرماتا ہے، اور اس کا صلہ جو آخرت میں عطا فرمایا جائے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہو گا۔ اللہ کے بندوں کا یہ عام تجربہ ہے کہ اللہ پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے وہ اخلاص کے ساتھ جتنا اس کی راہ میں اس کے بندوں پر صرف کرتے ہ یں اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا ہی میں عطا فرما دیتا ہے، ہاں اخلاص اور یقین شرط ہے۔
Top