معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 880
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ ، وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ ، قَالَ أَنَسٌ : فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ : {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} وَإِنَّ أَحَبَّ مَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « بَخٍ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ » فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ : أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَفِي بَنِي عَمِّهِ . (رواه البخارى ومسلم)
اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کھجور کے باغات کے لحاظ سے مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ دولت مند حضرت ابو طلحہ انصاری تھے اور انہیں اپنے باغات اور جائیدادوں میں سے سے زیادہپ محبوب بیر حا تھا (یہ ان کے ایک قیمتی باغ کا نام تھا) اور یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا نفیس پانی (شوق سے) نوش فرماتے تھے ... انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (نیکی اور مقبولیت کا مقام تم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اپنی محبوب چیزوں کو تم راہ خدا میں خرچ نہ کرو) تو حضرت ابو طلحہ ؓرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور مجھے اپنی ساری مالیات میں سب سے زیادہ محبوب بیر حاء ہے، اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا، اور میرے لیے ذخیرہ ہو گا۔ لہٰذا آپ ﷺ اس کے بارے میں وہ فیصلہ فرما دیں جو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن میں ڈالے (یعنی جو مصرف اس کا مناسب سمجھیں معین فرما دیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑی نفع مند اور کارآمد جائیداد ہے، میں نے تمہاری بات سن لی (اور تمہارا منشاء سمجھ لیا) میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے ضرورت مند قرئبی رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں یہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں میں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بعض روایات میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اپنا یہ باغ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنے خاص اقارب ابی بن کعب، حسان بن ثابت، شداد بن اوس اور عبیط بن جابر پر تقسیم کر دیا تھا ..... یہ باغ کس قدر قیمتی تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بعد میں حضرت معاویہ ؓ نے صرف حضرت حسان بن ثابت ؓ کا حصہ ایک لاکھ درہم میں خریدا تھا۔ فائدہ .... چونکہ آدمی کا زیادہ واسطہ اپنے عزیزوں قریبوں ہی سے رہتا ہے اور زیادہ تر معاملات انہیں سے پڑتے ہیں، اس لیے اختلافات اور تنازعات بھی زیادہ تر اقارب ہی سے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس دنیا کی زندگی بھی عذاب بن جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم و ہدایت پر عمل کیا جائے اور لوگ اپنے قرابت داروں پر اپنی کمائی خرچ کرنا اللہ کی رضا کا وسیلہ سمجھیں تو دنیا اور آخرت کے بڑے عذاب سے محفوظ رہیں۔ کاش دنیا رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کی قدر سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔
Top