معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 885
عَنِ أَبِىْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ » وفى رواية أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ... (رواه البخارى ومسلم)
ماہ رمضان کے فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں .... (اور ایک روایت میں بجائے " ابواب جنت " کے " ابوب رحمت " کا لفظ ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اسلام کے عناصر اربعہ ہیں۔ وہ حدیثیں اسی سلسلہ " معارف الحدیث " کے بالکل شروع میں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے ان پانچوں چیزوں کو اسلام کے ارکان اور بنیادی ستون بتایا ہے۔ ان کے ارکان اور عناصر ہونے کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ اسلام اللہ کی فرمانبرداری والے جس طرز حیات کا نام ہے اس کی تخلیق و تعمیر اور نشوو نما میں ان پانچوں کو خاص الخاص دخل ہے .... اس لحاظ سے نماز اور زکوٰۃ کی جو تاثیری خصوصیات ہیں وہ اپنے موقع پر ذکر کی جا چکی ہیں .... روزے کی اس تاثیر و خصوصیت کا ذکر خود قرآن مجید میں صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے .... سورہ بقرہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمانے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ " لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ " یعنی اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا یا دوسرے الفاظ میں کہئے کہ ملکوتیت اور بہیمیت کا نسخہ جامعہ بنایا ہے، اس کی طبیعت اور جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت اور ملکوتیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو ملاء اعلیٰ کی لطیف مخلوق فرشتوں کی خاص دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دار و مدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی اور ملکوتی عنصر بہیمی اور حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے اور اس کو حدود کا پابند رکھے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ بہیمی پہلو روحانی اور ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی نہ کر سکے .... روزہ کی ریاضت کا خاص مقصد و موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے اور چونکہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے۔ قرآن مجید میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ " (البقرۃ آیت ۱۸۳) اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے، تا کہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو۔ بہر حال روزہ چونکہ انسان کی قوت بہیمی کو اس کی ملکوتی اور روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلہ میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوت کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس لیے اگلی امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اگرچہ روزوں کی م دت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا .... اس آخری امت کے لیے جس کا دور دنیا کے آخری دن تک ہے سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کئے گئے ہیں اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا ہے، اور بلا شبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے لیے اس دور کے واسطے مناسب ترین اور نہایت معتدل مدت اور وقت ہے، اس سے میں ریاضت اور نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا، اور اگر اس سے زیادہ رکھا جاتا۔ مثلاً روزے میں دن کے ساتھ رات بھی شامل کر دی جاتی، اور بس سحر کے وقت کھانے پینے کی اجازت ہوتی، یا سال میں دو چار مہینے مسلسل روزے رکھنے کا حکم ہوتا، تو انسانوں کی اکثریت کے ناقابل برداشت اور صحتوں کے لیے مضر ہوتا .... بہر حال طلوع سحر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت اس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت و تربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اور معتدل ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیا گیا ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (لیلۃ القدر) ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو سکتا تھا .... پھر اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا ہے جو تراویح کی شکل میں امت پر رائج ہے .... دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات مل جانے کی برکات مل جانے سے اس مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں وہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کو اپنے اپنے ادراک و احساس کے مطابق ہر وہ بندہ محسوس کرتا ہے جو ان باتوں سے کچھ بھی تعلق اور مناسبت رکھتا ہے۔ ان مختصر تمہیدی اشارات کے بعد رمضان اور روزوں وغیرہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ذیل میں پڑھئے۔ تشریح .....استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے " حجۃ اللہ البالغہ " میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ .... اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہو کر عوام مومنین کے قلوب بھی رمضان میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے۔ اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں، اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں (یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئیے جانے) کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں .... باقی رہے وہ کفار اور خدا ناشناس اور وہ خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سرو کار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔
Top