معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 892
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ » (رواه البخارى ومسلم)
روزے اور تراویح باعث مغفرت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رمضان کے روزوں، اس کی راتوں کے نوافل اور خصوصیت سے شب قدر کے نوافل کو پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ بتایا گیا ہے بشرطیکہ یہ روزے اور نوافل ایمان و احتساب کے ساتھ ہوں .... یہ ایمان و احتساب خاص دینی اصطلاحیں ہیں، اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو نیک عمل کیا جائے اس کی بنیاد اور اس کا محرک بس اللہ و رسول کو ماننا اور اس کے وعدہ وعید پر یقین لانا اور ان کو بتائے ہوئے اجر و ثواب کی طمع اور امید ہی ہو، کوئی دوسرا جذبہ اور مقصد اس کا محرک نہ ہو۔ اسی ایمان و احتساب سے ہمارے اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جڑتا ہے، بلکہ یہی ایمان و احتساب ہمارے اعمال کے قلب و روح ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو پھر ظاہر کے لحاظ سے بڑے سے بڑے اعمال بھی بے جان اور کھوکھلے ہیں جو خدانخواستہ قیامت کے دن کھوٹے سکے ثابت ہوں گے اور ایمان و احتساب کے ساتھ بندوں کا ایک عمل بھی اللہ کے ہاں اتنا عزیز اور قیمتی ہے کہ اس کے صدقہ اور طفیل میں اس کے برسہا برس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایمان و احتساب کی یہ صفت اپنےفضل سے نصیب فرمائے۔
Top