معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 907
عَنِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ ذَكَرَ رَمَضَانَ فَقَالَ : « لاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ » (رواه البخارى ومسلم)
رؤیتِ ہلال
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر رمضان کا ذکر فرمایا، اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: رمضان کا روزہ اس وقت تک مت رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور روزوں کا سلسلہ ختم نہ کرو جب تک شوال کا چاند نہ دیکھو لو، اور اگر (۲۹) کو چاند دکھائی نہ دے تو اس کا حساب پورا کرو (یعنی مہینے کو ۳۰ دن کا سمجھو) .... (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شریعت اسلامی نے خاص اعمال و عبادات کے لیے جو مخصوص اوقات یا دن یا زمانے مقرر کئے ہیں ان کی تعیین میں اس بات کا خصوصیت سے لحاظ رکھا گیا ہے کہ اس وقت یا دن یا اس زمانہ کا جاننا پہچاننا کسی علم یا فلسفہ پر یا کسی آلہ کے استعمال پر موقوف نہ ہو، بلکہ ایک عامی اور بے پڑھا دیہاتی آدمی بھی مشاہدہ سے اس کو جان سکے۔ اسی طرح بند اور روزے کے اوقات سورج کے حساب سے مقرر کئے گئے۔ مثلاً فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک کا مقرر کیا گیا، ظہر کا وقت سورج کے نصف النہار سے ڈھل جانے کے بعد سے ایک مثل یا دو مثل سایہ ہو جانے تک اور عصر کا وقت اس کے بعد سے غروب آفتاب تک کا رکھا گیا، اسی طرح مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد سے شفق کے رہنے تک اور عشاء کا شفق سے غائب ہو جانے کے بعد بتایا گیا۔ ایسا ہی روزہ کا وقت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کا رکھا گیا .... ظاہر ہے کہ ان اوقات کو جاننے کے لیے کسی علم یا فلسفہ کی اور اور کسی آلہ کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر آدمی اپنے مشاہدہ سے اس کو جان سکتا ہے، اور جس طرح عوام کی سہولت کے پیش نظر نماز اور روزہ کو ان اوقات کے لیے سورج کے طلوع و غروب اور اتار چڑھاؤ کو معیار اور نشان قرار دیا گیا، اسی طرح زکوٰۃ اور حج اور روزہ وغیرہ ان اعمال اور عبادات کے لیے جن کا تعلق مہینے یا سال سے ہے چاند کو معیار قرار دیا گیا، اور بجائے شمسی سال اور مہینوں کے قمری سال اور مہینوں کا اعتبار کیا گیا، کیوں کہ عوام اپنے مشاہدہ سے قمری مہینوں ہی کو جان سکتے ہیں۔ شمسی مہینوں کے آغاز پر کوئی ایسی علامت آسمان یا زمین پر ظاہر نہیں ہوتی جو خود دیکھ کر ہر عام آدمی سمجھ سکے کہ اب پہلا مہینہ ختم ہو کر دوسرا مہینہ شروع ہو گیا، ہر قمری مہینوں کا آغاز چونکہ چاند نکلنے سے ہوتا ہے اس لیے ایک ان پڑھ دیہاتی بھی آسمان پر نیا چاند دیکھ کر جان لیتا ہے کہ پچھلا مہینہ ختم ہو کر اب اگلا مہینہ شروع ہو گیا۔ بہر حال شریعت اسلامی نے مہینے اور سال کے سلسلے میں نظام قمری کا جو اعتبار کیا ہے اس کی ایک خاص حکمت عوام کی یہ سہولت بھی ہے .... رسول اللہ ﷺ نے جب ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم سنایا، تو یہ بھی بتایا کہ رمضان کے شروع یا ختم کا ضابطہ اور معیار کیا ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ شعبان کے ۲۹ دن پورے ہونے کے بعد اگر چاند نظر آ جائے تو رمضان کے روزے شروع کر دو اور اگر ۲۹ویں کو چاند نظر نہ آئے تو مہینہ کے تیس دن پورے کر کے روزے شروع کرو، اور اسی طرح رمضان کے روزے ۲۹ یا ۳۰ رکھو .... پھر آپ ﷺ نے مختلف موقعوں پر رؤیت ہلال کے متعلق اور سب ضروری ہدایات دیں .... اس تمہید کے بعد مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے:
Top