معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 928
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِنَ المَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَرَفَعَهُ إِلَى يَدَيْهِ لِيُرِيَهُ النَّاسَ ، فَأَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ " ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ : « قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَفْطَرَ ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ » (رواه البخارى ومسلم)
مسافرت میں روزہ
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں آپ ﷺ برابر روزے رکھتے رہے، یہاں تک کہ آپ مقام عسفان تک پہنچ گئے (وہاں سے آپ ﷺ نے روزے رکھنے چھوڑ دئیے، اور سب پر یہ بات واضح کر دینے کے لیے) آپ ﷺ نے پانی منگوایا، پھر آپ ﷺ نے اس پانی کو ہاتھ میں لے کر اوپر اٹھایا، تا کہ سب لوگ دیکھ لیں (اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کو پیا) پھر مکہ پہنچنے تک آپ نے روزے نہیں رکھے، اور یہ سب ماہ رمضان میں پیش آیا .... تو ابن عباس ؓ (اسی بناء پر) کہا کرتے تھے کہ: رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور قضاء بھی کئے ہیں، تو (گنجائش ہے) کہ جس کا جی چاہے سفر میں روزے رکھے اور جس کا جی چاہے قضا کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں مکہ کے جس سفر کا ذکر ہے یہ فتح مکہ والا سفر تھا جو رمضان ۸؁ھ میں ہوا تھا، اس م یں آپ ﷺ شروع میں روزے رکھتے رہے جب مقام عسفان پہ پہنچے (جو مکہ معظمہ سے قریباً ۳۵، ۳۶ میل پہلے ایک چشمہ پڑتا تھا) اور وہاں سے مکہ صرف دو منزل رہ گیا، اور اس کا امکان پیدا ہو گیا کہ قریبی وقت میں کوئی مزاحمت یا معرکہ پیش آ جائے تو آپ ﷺ نے سمجھا کہ روزے نہ رکھے جائیں اس لیے آپ ﷺ نے روزہ قضا کر دیا، اور سب کو دکھا کے پانی پیا تا کہ کسی کے لیے روزہ قضا کرنا گراں نہ ہو ..... رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ جب تک روزہ قضاء کرنے میں کوئی ایسی مصلحت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے عسفان تک برابر روزے رکھے، اگر بغیر کسی خاص مصلحت کے بھی سفر میں روزہ قضا کرنا ہی افضل ہوتا، تو آپ ﷺ شروع سفر ہی سے قضا کرتے۔ اسی اقعہ کے باتے میں حضرت جابر ؓ کی بھی ای روایت صحیح مسلم میں ہے، اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے اس طرح بالاعلان روزہ قضا کرنے اور سب کو دکھا کر پانی پینے کے بعد بھی روزے جاری رکھے۔ جب رسول خدا کے سامنے یہ بات آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ " یہ لوگ خطا کار اور گناہ گار ہیں " (کیوں کہ انہوں نے منشاء نبوی ﷺ کے ظاہر ہونے کے بعد اس کی خلاف ورزی کی) اگر نادانستہ اور غلط فہمی سے کی، لیکن " حسنات الأبرار سيئات المقربين "
Top