معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 933
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ. قَالَ : « وَمَا لَكَ؟ » قَالَ : وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا؟ » قَالَ : لاَ ، قَالَ : « فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ » ، قَالَ : لاَ ، فَقَالَ : « فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا » . قَالَ : لاَ ..... قَالَ : اِجْلِسْ وَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ (وَالعَرَقُ المِكْتَلُ الضَّخْم) قَالَ : « أَيْنَ السَّائِلُ؟ » فَقَالَ : أَنَا ، قَالَ : « خُذْهَا ، فَتَصَدَّقْ بِهِ » فَقَالَ الرَّجُلُ : أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا - يُرِيدُ الحَرَّتَيْنِ - أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ، ثُمَّ قَالَ : « أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ » (رواه البخارى ومسلم)
نفس کی خواہش سے بلا عذر شرعی فرض روزہ توڑنے کا کفارہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو ہلاک ہو گیا (یعنی میں ایک ایسا کام کر بیٹھا ہوں جس نے مجھے ہلاک و برباد کر دیا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا ہو گیا؟ اس آدمی نے کہا: میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی (دوسری روایت میں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہارے پاس اور تمہاری ملکیت میں کوئی غلام ہے جس کو تم اس غلطی کے کفارہ میں آزاد کر سکو؟ اس آدمی نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر کیا تم یہ کر سکتے ہو کہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھو؟ اس نے عرض کیا کہ: یہ بھی میرے بس کی بات نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہارے پاس اتنا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اس نے عرض کیا کہ: مجھے اس کی بھی مقدرت نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو بیٹھے رہو (شاید اللہ تعالیٰ کوئی سبیل تمہارے لیے پیدا کرے۔ ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ):۔ رسول اللہ ﷺ بھی وہیں تشریف فرما رہے اور ہم لوگ بھی ابھی وہیں حاضر تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کھجوروں کا ایک بہت بڑا بورا آیا۔ آپ ﷺ نے پکارا کہ: مسئلہ پوچھنے والا وہ آدمی کدھر ہے؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بورے کو لے لو (اور اپنی طرف سے) صدقہ کر دو۔ اس نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسے محتاجوں پر صدقہ کروں جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہوں؟ خدا کی قسم! مدینہ کی دونوں طرف کی پتھریلی زمین کے درمیان (یعنی مدینہ کی پوری بستی) میں کسی گھر کے لوگ بھی میرے گھر والوں سے زیادہ حاجت مند نہیں ہیں (اس کی اس بات پر) رسول اللہ ﷺ کو (خلاف عادت) ایسی ہنسی آئی کہ آپ ﷺ کے دائیں بائیں کنارے والے دانت (کچلیاں) بھی ظاہر ہو گئیں (حالانکہ عادت مبارکہ صرف تبسم کی تھی) پھر آپ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا: اچھا! یہ کھجوریں اپنے اہل و عیال ہی کو کھلا دو ..... (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی رمضان کے روزہ میں نفس کی خواہش سے ایسی غلطی کر بیٹھے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرنے کی مقدرت ہو تو غلام آزاد کرے، اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو متواتر دو مہینے کے روزے رکھے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے .... جمہور ائمہ و فقہاء کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ اس میں ائمہ کی رائے میں اختلاف ہو گیا ہے کہ یہ کفارہ کیا صرف اسی صورت میں واجب ہو گا جب کہ کسی نے رمضان کے روزہ میں جماع کیا ہو۔ یا اس صورت میں بھی واجب ہو گا جب کسی نے دانستہ کچھ کھا پی کے روزہ توٹ ڈالا ہو۔ حضرت امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یہ کفارہ صرف جماع والی صورت کے ساتھ مخصوص ہے، کیوں کہ حدیث میں جو واقعہ مذکور ہے وہ جماع ہی کا ہے .... لیکن امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، سفیان ثوریؒ اور عبداللہ بن مبارکؒ وغیرہ ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ یہ کفارہ دراصل رمضان کے روزہ کی بےحرمتی کا ہے اور اس جرم کی سزا ہے کہ اس نے اپنے نفس کی خواہش کے مقابلہ میں رمضان کے روزہ کا احترام نہیں کیا اور اس کو توڑ ڈالا، اور یہ جرم دونوں صورتوں میں یکساں ہے اس لیے اگر کسی نے دانستہ کھا پی کے روزہ توڑا تو اس پر بھی یہ کفارہ واجب ہو گا۔ اس واقعہ میں ایک عجیب و غریب بات یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان صاحب واقعہ صحابی کو کھجوروں کا جو بورا اس لیے عنایت فرمایا تھا کہ مساکین پر صدقہ کر کے وہ اپنا کفارہ ادا کریں، ان کے اس کہنے پر کہ مدینہ بھر میں مجھ سے اور میرے اہل و عیال سے زیادہ حاجت مند کوئی بھی نہیں ہے آپ ﷺ نے اس بارے میں ان کو اجازت دے دی کہ اس کو اپنے ہی کام میں لے آئیں .... اس کے بارے میں جمہور ائمہ کی رائے یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح ان کا کفارہ ادا ہو گیا، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی وقتی ضرورت اور حاجت مندی کا لحاظ کر کے ان کھجوروں کو اپنے خرچ میں لے آنے کی ان کو اس وقت اجازت دے دی اور کفارہ ان کےک ذمہ واجب رہا .... اور مسئلہ یہی ہے کہ اگر رمضان کا روزہ کوئی ایسا آدمی اس طرح توڑ ڈالے جو نہ تو فی الوقت غلام آزاد کر سکتا ہو، نہ دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتا ہو اور نہ افلاس و غربت کی وجہ سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو تو کفارہ اس کے ذمہ واجب رہے گا، وہ اس کی ادائیگی کی نیت رکھے اور جب کبھی اس کو استطاعت ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے .... اور امام زہری وغیرہ ائمہ کی رائے یہ ہے کہ عام شرعی قانون اور مسئلہ تو یہی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان صحابی کے ساتھ ایک طرح کا استثنائی معاملہ کیا اور ان کا کفارہ اسی طرح ادا ہو گیا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں کسی قدر اختصار کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بھی مروی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے " فتح الباری " شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ بعض علمائے کبار نے (جن کو ہمارے اساتذہ اور شیوخ نے دیکھا ہے) ابو ہریرہ ؓ والی اس حدیث کی شرح دو جلدوں میں لکھی ہے اور دکھایا ہے کہ اس حدیث سے ایک ہزار علمی فائدے اور نکتے پیدا ہوتے ہیں۔
Top