معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 944
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَا عَبْدَ اللَّهِ ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ؟ » ، فَقُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ : « فَلاَ تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ ، وَقُمْ وَنَمْ ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ ، صَوْمُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ » ، صُمْ كُلِّ شَهْرٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ صُمْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ وَاقْرَإِ القُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ » ، قُلْتُ : أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ ، قَالَ : « صُمْ أَفْضَلَ الصَّوْمِ صَوْمَ دَاوُدَ صِيَامُ يَوْمٍ وَإِفْطَارُ يَوْمٍ ، وَاقْرَأْ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ مَرَّةً وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ » (رواه البخارى ومسلم)
ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ: مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے یہ معمول بنا رکھا ہے کہ تم ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نوافل پڑھتے ہو (کیا واقعہ ایسا ہی ہے؟) میں نے عرض کیا کہ: ہاں حضرت! میں ایسا ہی کرتا ہ۲وں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ طریقہ چھوڑ دو روزے بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو، اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو کیاں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے (تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ جسم پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالو اور اس کے ضروری تقاضے بھی پورے نہ کرو) اسی طرح تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے (کہ تم اس کو سونے اور آرام لینے کا موقع دو) اسی طرح بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتیوں مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے (تم کو جائز نہیں کہ ان کی حق تلفی کر کے) اللہ کی عبادت کرو۔ سنو! جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں، ہر مہینے میں تین دن کے نفلی روزے رکھ لینا ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے، اس لئے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو، اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کر لیا کرو۔ (عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں (اس لیے مجھے زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر تم داؤد علیہ السلام کے روزوں کا طریقہ اختیار کر لو، اور یہ کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار (یعنی روزہ کا ناغہ) اور تہجد میں سات راتوں میں ایک قرآن ختم کر لیا کرو، اور اس سے زیادہ نہ کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نوافل پڑھتے اور اس میں روزونہ پورا قرآن مجید ختم کر لیتے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کو وہ ہدایت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہوئی اور اس کی عبادت میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا اور فرمایا کہ: تم پر اپنے جسم و جان اور اپنے اہل تعلق کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور ان کی بھی رعایت اور ادائیگی ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے پہلے انہیں مہینے میں تین نفلی روزے رکھنے اور تہجد میں پورے مہینے میں ایک قرآن پڑھنے کے لیے فرمایا، اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں با آسانی اس سے زیادہ کر سکتا ہوں لہٰذا کچھ زیادہ کی مجھے اجازت دے دیجئے تو آپ ﷺ نے ان کو صوم داؤد کی (یعنی ہمیشہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کی) اور ہفتہ میں ایک قرآن مجید رات کے نوافل میں پورا کر لینے کی اجازت مرحمت فرما دی اور اس سے زیادہ کے لیے منع فرما دیا .... لیکن اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی ممانعت کا منشاء یہ نہیں تھا کہ زیادہ عبادت کرنا کوئی بری بات ہے، بلکہ یہ ممانعت بر بنائے شفقت تھی (جس طرح چھوٹے بچوں کو زیادہ بوجھ اٹھانے سے منع کیا جاتا ہے) یہی وجہ ہے کہ ان کے یہ عرض کرنے پر کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے ان کو مہینہ میں صرف تین روزوں کے بجائے صوم داؤد کی یعنی ۱۵ دن روزہ اور ۱۵ دن افطار کی اور مہینہ میں قرآن ختم کرنے کے بجائے ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ بلکہ ترمذی کی روایت کے مطابق بعد میں صرف پانچ دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی اور بعض صحابہ کو حضور ﷺ نے تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی ہے۔
Top