معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 945
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : أَنَّ رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، غَضَبَهُ ، قَالَ : رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ ، فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَالَ : « لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ » أَوْ قَالَ « لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ : « وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟ » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ : « ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام » قَالَ : كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ : « وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ » ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ » (رواه مسلم)
ہر مہینہ میں تین نفلی روزے کافی ہیں
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ: آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزے رکھنے کے بارے میں آپ کا کیا معمول و دستور ہے؟) اس کے اس سوال پر رسول اللہ ﷺ کو ناگواری ہوئی (یعنی چہرہ مبارک پر تکدر اور برہمی کے آثار ظاہر ہوئے) حضرت عمر ؓ نے (جو حاضر تھے) جب آپ کی ناگواری کی کیفیت کو محسوس کیا تو کہا: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ ہم راضی ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور محمد علیہ السلام کو نبی مان کر، اللہ کی پناہ اس کی ناراضی سے اور اس کے رسول کی ناراضی سے۔ حضرت عمر ؓ بار بار اپنی یہی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا۔ تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزے رکھے، اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا اور اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزے رکھے اور اییک دن ناغہ کرے یعنی بغیر روزے کے رہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس لیے اس کا ارادہ نہ کرنا چاہئے) حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اور اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے: جو ہمیشہ ایک دن روزے رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ صوم داؤد ہے (یعنی حضرت داؤد علیہ السلام جن کو اللہ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی ان کا معمول یہی تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے) حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ: اس آدمی کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ اور اس طرح اوسطاً ہر مہینے میں دن دن روزہ رکھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے .... پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مہینے کے تین نفلی روزے اور رمضان تا رمضان یہ (یہ اجر و ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے (لہذا جو صوم دہر کا ثواب حاصل کرنا چاہے وہ اس کو اپنا معمول بنا لے) اور یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) کے روزے کے بارے میں، میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے کرم سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے ساتل کی اور بعد کے سال کی (یعنی اس کی برکت سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں) اور یوم عاشورا (۱۰ محرم) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے سال کی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کا اصل مفہوم و مقصد تو ظاہر ہے لیکن چند ضمنی باتیں وضاحت طلب ہیں، انہی کے بارے میں کچھ عرض کیا جاتا ہے۔ حدیث کے بالکل شروع میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں خود آپ کا معمول اور طریقہ کیا ہے) آپ کو اس سوال پر ناراضی اور ناگواری ہوئی .... یہ ناراضی اور ناگواری ایسی ہی تھی جیسی شفیق استاد اور مربی کو کسی شاگرد اور زیر تربیت طالب و مرید کے غلط اور نامناسب سوال سے ہوتی ہے۔ سوال کرنے والے کو اصل بات دریافت کرنی چاہئے تھی۔ یعنی یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ میرے لیے نفلی روزوں کے بارے میں کیا طرز عمل مناسب ہے؟ اس نے بجائے اس کے حضور ﷺ کا معمول دریافت کیا تھا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ زندگی کے بہت سے شعبوں میں ان بہت سے اسباب کی بناء پر جو آپ کے منصب نبوت اور مصالح امت سے تعلق رکھتے تھے ایسا طرز عمل بھی اختیار کرتے تھے جس کی تقلید ہر ایک کے لیے مناسب نہیں ہے اس لیے سائل کو آپ کا معمول دریافت کرنے کے بجائے اصل مسئلہ دریافت کرنا چاہئے تھا ..... استاذ اور مربی کی اس طرح کی ناگواری بھی در اصل تربیت ہی کا ایک جز ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اس سوال سے حضور ﷺ کی ناگواری کو محسوس کر کے مسلمانوں کی طرف سے عرض کیا: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ اس کے بعد آپ نے نفلی روزوں ہی کے بارے میں صحیح طریقے پر سوال کئے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے جوابات مرحمت فرمائے۔ جو شخص ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے اس کے بارے میں آپ ﷺ نے جو فرمایا کہ 44: لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ (نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا) اس سے آپ کا مقصد ناپسندیدگی کا اظہار ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ غلط ہے، نہ صوم ہے نہ افطار ہے۔ حضرت عمر ؓ کے سوالات کے جوابات کے بعد آپ ﷺ نے اپنی طرف سے جو مزید فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کے باب میں عام مسلمین کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ رمضان کے فرض روزے رکھا کریں، اس کے علاوہ ہر مہینے میں تین نفلی روزے رکھ لیا کریں جو الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا کے حساب سے ثواب میں تیس روزوں کے برابر ہوں گے اور اس طرح ان کو صوم دہر کا ثواب مل جائے گا .... مزید نفع مندی اور کمائی کے لیے یوم عرفہ اور یوم عاشورا کے دو روزے بھی رکھ لیا کریں۔ حضور ﷺ نے امید ظاہر فرمائی کہ رب کریم کے کرم سے مجھے امید ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ایک سال پہلی اور ایک سال بعد کی خطاکاریوں کا اور یوم عاشورا کا روزہ پہلے سال کی غلط کاریوں کا کفارہ بن جائے گا۔ واضح رہے کہ عرفہ کے دن جو دراصل حج کا دن ہے روزہ کی یہ فضیلت اور ترغیب غیر حاجیوں کے لیے ہے، حاجیوں کی اس دن کی خاص الخاص اور مقبول ترین عبادت میدان عرفات کا وقوف ہے جس کے لیے ظہر و عصر کی نماز مختصر اور ایک ساتھ پڑھ لینے کا حکم ہے اور ظہر کی سنتیں بھی اس دن چھوڑ دینے کا حکم ہے، اگر حاجی لوگ اس دن روزہ رکھیں گے تو ان کے لیے عرفات میں وقوف اور آفتاب غروب ہوتے ہی مزدلفہ کو چل دینا مشکل ہو گا، اس لیے حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے (بلکہ ایک حدیث میں ممانعت بھی وارد ہوئی ہے) اور رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنے عمل سے بھی اس کی تعلیم امت کو دی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے عرفہ کے دن ٹھیک اس وقت جب کہ آپ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر تھے اور وقوف فرما رہے تھے سب کے سامنے دودھ نوش فرمایا تا کہ سب دیکھ لیں کہ آپ آپ روزے سے نہیں ہیں۔ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ در اصل اس دن کی ان رحمتوں اور برکتوں میں شریک اور حصہ دار ہونے ہی کے لیے ہے جو عرفات میں حجاج پر نازل ہوتی ہیں، اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کے جو صاحب ایمان بندے حج میں شریک نہیں ہیں وہ اس پورے دن میں روزہ رکھ کر اس دن کی خاص الخاص رحمتوں اور برکتوں میں کسی درجے کا حصہ لے لیں۔ اسی طرح یوم النحر یعنی بقر عید کے دن غیر حاجیوں کو قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا راز بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ یوم عاشورا کا روزہ نفلی روزوں میں اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے وہی فرض تھا۔ جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے تو اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور صرف نفلی درجہ رہ گیا۔ اس کے بارے میں احادیث آگے مستقل عنوان کے تحت ان شاء اللہ درج ہوں گی۔
Top