معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 947
عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةُ أَنَّهَا قَالَتْ : سَأَلَتْ عَائِشَةَ « أَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟ » قَالَتْ : « نَعَمْ » ، فَقُلْتُ لَهَا : « مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ؟ » قَالَتْ : « لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ » (رواه مسلم)
مہینہ کے تین روزوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا معمول
معاذہ عدویہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! آپ ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے۔ معاذہ نے پوچھا کہ: مہینے کے کس حصے میں (اور کن تاریخوں) میں رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ: اس کی فکر نہیں فرماتے تھے کہ مہینہ کے کس حصے میں رکھیں۔ (و صحیح مسلم)

تشریح
بعض روایات میں ہر مہینے کے شروع میں روزے رکھنے کا حضور ﷺ کا معمول ذکر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں مہینہ کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کا، اور بعض روایات میں ہفتہ کے خاص خاص تین دنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس بیان سے جیسا کہ معلوم ہوا ان میں سے کوئی بھی آپ کا دوامی معمول نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ ﷺ کو سفر اور اس کے علاوہ بھی دوسری چیزیں بکثرت پیش آتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے آپ کے لیے خاص تاریخوں یا دنوں کی پابندی مناسب نہیں تھی۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کا خاص تاریخوں اور خاص دنوں میں ہمیشہ روزے رکھنا امت کے مختلف الحال لوگوں کے لئے باعث زحمت ہوتا اور اس سے یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی تھی کہ یہ روزے واجبات میں سے ہیں۔ الغرض اس طرح کی مصلحتوں کی وجہ سے آپ خود کاص تاریخوں اور دنوں کی پابندی نہیں فرماتے تھے، اور آپ کے حق میں یہی افضل اور اولیٰ تھا، لیکن صحابہ کرام کو آپ مہینے کے تین دن کے روزوں کے سلسلے میں اکثر ایام بیض (۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ) کی ترغیب دیتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے معلوم ہو گا۔
Top