معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 950
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟ » فَقَالُوا : هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ ، أَنْجَى اللهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ ، فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا ، فَنَحْنُ نَصُومُهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ فَصَامَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ » (رواه البخارى ومسلم)
یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ نے ان سے دریافت کیا (تمہاری مذہبی روایات میں) یہ کیا خاص دن ہے (اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے) کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ: ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق آب کیا تھا تو موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں .... رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ کے پیغمبر موسیٰؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اوپر جو حدیثیں ہر مہینہ میں تین دن کے نفلی روزوں کے بارے میں درج ہوئیں، ان میں سے بھی بعض یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلتے اور ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کے خصوصی اہتمام و پابندی کا ذکر ضمناً آ چکا ہے۔ ذیل میں چند حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جو خاص اسی سے متعلق ہیں، اور جن سے اس دن کی خصوصیت اور تاریخی اہمیت بھی معلوم ہو گی۔ تشریح ..... اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر ہی عاشورہ کے دن روزہ رکھنا شروع فرمایا۔ حالانکہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی صریح روایت موجود ہے کہ قریش مکہ میں قبل از اسلام بھی یومِ عاشورہ کے روزے کا رواج تھا اور خود رسول اللہ ﷺ بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو یہاں آ کر آپ نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ یوم عاشورہ زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہو گی اور رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ان میں آپ ﷺ ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے۔ اسی بناء پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے۔ پس اپنے اس اصول کی بناء پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے، لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے .... پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپ ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ وہ یہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو اللہ نے نجات فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا (اور مسند احمد وغیرہ کی روایت کے مطابق اسی یوم عاشورہ کو حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی تھی) تو آپ ﷺ نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا، اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔ بعض احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ربیع بن معوذ بن عفراء ؓ اور سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ داروں کی طرح رہیں ..... ان حدیثوں کی بناء پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع مین عاشورہ کا روزہ واجب تھا، بعد میں جب رمضان مبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی رہ گئی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ابھی اوپر گزر چکا ہے کہ " مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پہلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہو جائے گی۔ " اور صوم یوم عاشورہ کی فرضیت منسوخ ہو جانے کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان مبارک کے فرض روزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں اسی کا کرتے تھے۔
Top