معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 952
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ يُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا يَوْمَ التَّاسِعِ ". قَالَ : فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه مسلم)
یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی و مذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے کے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ان شاء اللہ! جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے .... عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی وفات واقع ہو گی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے اشکال عرض کرنے پر یہ بات رسول اللہ ﷺ نے وفات شریف سے کچھ ہی پہلے فرمائی، اتنی پہلے کہ اس کے بعد محرم کا مہینہ آیا ہی نہیں، اور اس لیے اس نئے فیصلے پر عمل درآمد حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں نہیں ہو سکا، لیکن امت کو رہنمائی مل گئی کہ اس طرح کے اشتراک اور تشابہ سے بچنا چاہئے .... چنانچہ اسی مقصد سے آپ ﷺ نے یہ طے فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال سے ہم نویں کا روزہ رکھیں گے۔ نویں کا روزہ رکھنے کا آپ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں محرم کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے، اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہو جائے گا .... اکثر عملاء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔ یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود و نصاریٰ وغیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا، لہذا فی زمانہ ارفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔
Top