معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 965
عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْر اللهِ »
وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے
نبیشۃ ھذلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ایام تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ) کھانے پینے کے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عمر بن الخطاب ؓکی مندرجہ بالا حدیثوں میں یوم الفطر اور یوم النحر کے دنوں میں روزہ رکھنے کی صریح ممانعت فرمائی گئی ہے، اور حضرت عمر ؓ کے ارشاد میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یوم الفطر کا روزہ تو اس لیے منع ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد " فطر کا دن " یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے پیننے کا دن قرار دیا ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنے میں منشاء الٰہی کی مخالفت ہے اور یوم النحر کا روزہ اس لیے منع ہے کہ وہ قربانی کا گوشت کھانے کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس دن جو قربانیاں اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائیں اس کے بندے ان قربانیوں کا گوشت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کی ضیافت سمجھ کر اور اس کے در کے فقیر بن کر شکر کے ساتھ کھائیں، اور وہ بندہ بلا شبہ بڑا متکبر اور کافر نعمت ہے جو اللہ کی عام ضیافت کے دن دانستہ روزہ رکھ لے، اور چونکہ ذی الحجہ کی گیارھویں اور بارہویں بھی قربانی کے دن ہیں، اس لیے ان کا حکم بھی یہی ہے .... اور نبیشۃ ہذلی کی آخری حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے پورے ایام تشریق کو کھانے پینے کے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ضیافت کے دن فرمایا ہے جس میں ۱۳ ذی الحجہ بھی شامل ہے، اس لئے ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ تک پانچوں دن روزہ رکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اب ان دنوں میںروزہ رکھنا عبادت نہیں بلکہ معصیت ہو گا۔ ؎ چوں طمع خواہد ز من سلطان دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں
Top