معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1008
عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ ، وَيَقُولُ : « إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ ، مَاتَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ » (رواه البخارى ومسلم)
حجر اسود
عابس بن ربیۃ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو دیکھا وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور کہتے تھے میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے (تیرے اندر کوئی خدائی صفت نہیں ہے) نہ تو کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقسان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے نہ چومتا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عمر ؓ نے یہ بات بالاعلان اور علی رؤس الاشہاد اس لیے کہی کہ کوئی ناتربیت یافتہ نیا مسلمان حضرت عمر ؓ اور دوسرے اکابر مسلمین کا حجر اسود کو چومنا دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اس پتھر میں کوئی خدائی کرشمہ اور خدائی صفت اور بناؤ بگاڑ کی کوئی طاقت ہے، اور اس لیے اس کو چوما جا رہا ہے۔ حضرت عمر ؓ کے اس ارشاد سے ایک اصولی اور بنیادی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی چیز کی جو تعظیم و تکریم اس نظریہ سے کی جائے کہ اللہ و رسول کا حکم ہے۔ وہ تعظیم برحق ہے، لیکن اگر کسی مخلوق کو نافع اور ضار اور بناؤ بگاڑ کا مختار یقین کر کے اس کی تعظیم کی جائے تو وہ شرک کا ایک شعبہ ہے، اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔
Top