معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1024
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَنْفِرُ أَحَدُكُمْ ، حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ ، إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنِ الحَائِضِ » (رواه البخارى ومسلم)
طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ لوگ (حج کرنے کے بعد) اپنے اپنے وطنوں کے رخ پر چل دیتے تھے (طواف وداع کا اہتمام نہیں کرتے تھے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک وطن کی طرف کوچ نہ کرے جب تک کہ اس کی آخری حاضری بیت اللہ پر نہ ہو (یعنی جب تک کہ طواف وداع نہ کر لے) البتہ جو عورت خاص ایام کے عذر کی وجہ سے طواف سے معذور ہو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے (اس کو طواف وداع معاف ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جیسا کہ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے۔ پہلے لوگ طواف وداع کا اہتمام اور پابندی نہیں کرتے تھے۔ ۱۲ یا ٍ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام کر کے اور رمی جمرات وغیرہ وہاں کے مناسک ادا کر کے اپنے اپنے وطنوں کو چل دیتے تھے ..... رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس کے وجوب اور اہمیت کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ فقہاء نے طواف وداع کوواجب قرار دیا ہے، البتہ حدیث کی تصریح کے مطابق وہ مستورات جو اپنے خاص ایام کی وجہ سے طواف سے معذور ہوں، وہ اگر طواف زیارت کر چکی ہوں تو بغیر طواف وداع کیے مکہ معظمہ سے وطن رخصت ہو سکتی ہیں ....... ان کے علاوہ ہر بیرونی حاجی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کی طرف روانہ ہونے سے پہلے وداع اور رخصت ہی کی نیت سے آخری طواف کرے اور یہی حج کے سلسلے کا آخری عمل ہو۔
Top