معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1029
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ : « لاَ هِجْرَةَ ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ ، فَانْفِرُوا » وَقَالَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ : « إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ القِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ، لاَ يُعْضَدُ شَوْكُهُ ، وَلاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهُ ، وَلاَ يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا ، وَلاَ يُخْتَلَى خَلاَهُ » قَالَ العَبَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِلَّا الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ ، فَقَالَ : « إِلَّا الإِذْخِرَ » (رواه البخارى ومسلم)
حرم مکہ کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب ہجرت کا حکم نہیں رہا لیکن جہاد ہے، اور نیت! تو جب تم سے راہ خدا میں کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل دو ..... اور اسی فتح مکہ کے دن آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ: یہ شہر مکہ اللہ نے اس کو اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن کہ زمین و آسمان ک ی تخلیق ہوئی (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی وقت زمین کے اس قطعہ کو جس پر مکہ معظمہ آباد ہے، اور اس کے آس پاس کے علاقہ احرام کو واجب الاحترام قرار دیا، لہذا اللہ کے اس حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام واجب ہے) اور مجھ سے پہلے اللہ نے اپنے کسی بندے کو یہاں قتال فی سبیل اللہ کی بھی اجازت نہیں دی، اور مجھے بھی دن کے تھوڑے وقت کے لیے اس کی عارضی اور وقتی اجازت دی گئی تھی اور وہ وقت ختم ہو جانے کے بعد اب قیامت تک کے لیے یہاں قتال اور ہر وہ اقدام اور عمل جو اس مقدس جگہ کے ادب و احترام کے خلاف ہو حرام ہے، اس علاقہ کے خاردار جھاڑ بھی نہ کاٹے چھانٹے جائیں۔ یہاں کے کسی قابل شکار جانور کو پریشان بھی نہ کیا جائے اور اگر کوئی گری پڑی چیز نظر پڑے تو اس کو وہی اٹھائے جو قاعدے کے مطابق اس کا اعلان اور تشہیر کرتا رہے، اور یہاں کی سبز گھاس بھی نہ کاٹی اکھاڑی جائے ..... (اس پر آپ کے چچا) حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: " اذخر گھاس کو مستثنیٰ قرار دیا جائے، کیوں کہ یہاں کے لوہار اس کو استعمال کرتے ہیں اور گھروں کی چھتوں کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ " رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کے اس عرض کرنے پر اذخر گھاس کو مستثنیٰ فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دو اعلانوں کا ذکر ہے، جو آپ نے فتح مکہ کے دن خاص طور سے فرمائے تھے ..... پہلا اعلان یہ تھا کہ: اب ہجرت کا حکم نہیں رہا ..... اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب مکہ پر ان اہل کفر و شرک کا اقتدار تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھا، اور مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گذارنا گویا ناممکن تھا تو حکم یہ تھا کہ مکہ میں اللہ کا جو بندہ اسلام قبول کرے اس کے لیے اگر ممکن ہو تو وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جائے جو اس وقت اسلامی مرکز اور روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی۔ بہرحال ان کاص حالات میں یہ ہجرت فرض تھی اور اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت تھی ..... لیکن جب ۸؁ھ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر بھی اسلامی اقتدار قائم کرا دیا تو پھر ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی، اس لئے آپ ﷺ نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان فرما دیا کہ: اب ہجرت کا وہ حکم اٹھا لیا گیا ..... اس سے قدرتی طور پر ان لوگوں کو بڑی حسرت اور مایوسی ہوئی ہو گی جن کو اب اسلام کی توفیق ملی تھی اور ہجرت کی عظیم فضیلت کا دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہ گئے تھے ..... ان کی اس حسرت کا مداوا فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ہجرت کی فضیلت و سعادت کا دروازہ اگرچہ بند ہو گیا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اور اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی اطاعت کی نیت اور بالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے دلی عزم و آمادگی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، اور برٰ سے بڑی سعادت اور فضیلت ان راہوں سے اللہ کا ہر بندہ حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرا اعلان فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ: یہ شہر جس کی عظمت و حرمت دور قدیم سے مسلم چلی آ رہی ہے یہ مضح رسم و رواج یا کسی فرد یا پنچائیت کی تجویز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ازلی حکم سے ہے اور قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کا خاص ادب و احترام کیا جائے، یہاں تک کہ اللہ کے لیے جہاد و قتال جو ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت اور بڑے درجہ کی سعادت ہے یہاں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے کسی بندہ کو اس کی اجازت وقتی طور پر بھی نہیں دی گئی۔ مجھے بھی بہت تھوڑے سے وقت کے لیے اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور وہ بھی وقت ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو گئی۔ اب قیامت تک کے لیے کسی بندے کو یہاں قتال کی اجازت نہیں ہے .... جس طرح مخصوص سرکاری علاقوں کے خاص قوانین ہوتے ہیں اسی طرح یہاں کے خاص آداب اور قوانین ہیں، اور وہ وہی ہیں جن کا آپ ﷺ نے اس موقع پر اعلان فرمایا .... قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے۔
Top