معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1031
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ : - وَهُوَ يَبْعَثُ البُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الأَمِيرُ ، أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغَدَ مِنْ يَوْمِ الفَتْحِ ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي ، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ : حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ ، فَلاَ يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا ، وَلاَ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً ، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا ، فَقُولُوا : إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا اليَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْسِ ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ " فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ عَمْرٌو قَالَ : أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ لاَ يُعِيذُ عَاصِيًا وَلاَ فَارًّا بِدَمٍ وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَةٍ. (رواه البخارى ومسلم)
حرم مکہ کی عظمت
ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، جب کہ وہ (یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن الزبیر ؓ کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان بیان کروں جو آپ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا۔ میں نے اپنے کانوں سے آپ ﷺ کا وہ فرمان خود سنا تھا اور میرے ذہن نے اس کو یاد کر لیا تھا اور جس وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک سے وہ فرمان صادر ہو رہا تھا اس وقت میری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی، اس کے بعد فرمایا تھا کہ: اور اس کے ماحو کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے، اس کی حرمت کا فیصلہ انسانوں سے نہیں کیا ہے، اس لیے جو آدمی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حرام ہے کہ وہ یہاں خونریزی کرے بلکہ یہاں کے درختوں کا کاٹنا بھی منع ہے۔ (آپ ﷺ نے فرمایا) اور اگر کوئی شخص میرے قتال کو سند بنا کر اپنے لیے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی، تجھے اجازت نہیں دی ہے، اور مجھے بھی اللہ نے ایک دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے عارضی اور وقتی طور پر اجازت دی تھی، اور اس وقت کے ختم ہونے کے بعد وہ حرمت لوٹ آئی، اور اب قیامت تک کسی کے لیے اس کا جواز نہیں ہے ..... (اس کے ساتھ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ) جو لوگ یہاں موجود ہیں اور جنہوں نے میری یہ بات سنی ہے وہ دوسرے لوگوں کو یہ بات پہنچا دیں (اس لیے اے امیر! میں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں آپ ﷺ کا یہ فرمان تم کو پہنچایا ہے) ..... ابو شریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے کیا جواب دیا، انہوں نے بتلایا کہ اس نے کہا کہ: ابو شریح! مین یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان کو یا ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے یا کوئی نقصان کر کے بھاگ گیا ہو پناہ نہیں دیتا (یعنی ایسے لوگوں کے خلاف حرم میں بھی کاروائی کی جائے گی)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اسلام کی پہلی ہی صدی میں سیاسی اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے اسلام کے ساتھ جو معاملہ کیا اور اس کے احکام کو اپنی اغراض کے لیے جس طرح توڑا مروڑا وہ تاریخ اسلام کا نہایت تکلیف دہ باب ہے۔ ابو شریح عدوی جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے، انہوں اموی حاکم عمرو بن سعید کے سامنے بروقت کلمہ حق کہہ کے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا کر اپنا فرض ادا کر دیا .... صحیحین کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ عمرو بن سعید نے جو بات کہی، ابو شریح نے اس کے جواب میں کچھ کہا یا نہیں۔ لیکن مسند احمد کی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا، وَكُنْتَ غَائِبًا وَقَدْ أَمَرَنَا أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ نے یہ بات فرمائی تھی مین اس وقت وہاں حاضر اور موجود تھا اور تم وہاں نہیں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہے وہ میری یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ..... میں نے اس حکم نبوی ﷺ کی تعمیل کر دی اور تم کو یہ بات پہنچا دی۔ ابو شریح عدوی ؓ کے اس جواب میں یہ بھی مضمر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مقصد و منشاء سمجھنے کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جن کے سامنے آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی، اور جنہوں نے موقع پر حضور ﷺ سے یہ بات سنی۔
Top