معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1038
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَإِذَا أَخَذَهُ قَالَ : اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا ، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا ، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ » ، قَالَ : ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِكَ الثَّمَرَ. (رواه مسلم)
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس کو قبول فرما کر اس طرح دعا فرماتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں اور پیداوار میں برکت دے، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے! الہٰی! ابراہیمؑ تیرے خاص بندے ار تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے، اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی تھی، اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید ....... پھر آپ کسی چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ نیا پھل اس کو دے دیتے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پھلوں اور پیداوار میں برکت کا مطلب تو ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو اور فصل بھرپور ہو۔ اور شہر مدینہ میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب آباد ہو، اور اس کے رہنے والوں پر اللہ کا فضل ہو .... اور صاع اور مد دو پیمانے ہیں۔ اس زمانہ میں غلہ وغیرہ کی خرید و فروخت ان پیمانوں ہی سے ہوتی تھی، ان میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ ایک صاع ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کافی ہوتا ہے اس سے زیادہ کے لیے کافی ہو۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جو آپ نے اپنی بیوی بچے کو مکہ کی غیر آباد اور بے آب و گیاہ وادی میں بسا کر اللہ سے ان کے لیے کی تھی، کہ: " اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و مودت ڈال دے، اور ان کو ان کی ضرورت کا رزق اور پھل وغیرہ پہنچا، اور یہاں کے لیے امن اور سلامتی مقدر فرما! " رسول اللہ ﷺ بطور نظیر اس ابراہیمیؑ دعا کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدینہ کے لیے وہی دعا، بلکہ مزید اضافے کے ساتھ کرتے تھے ..... اس دعا کا یہ ثمرہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے جن ایمان والے بندوں کو مکہ سے محبت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے بھی محبت ہے، اور اس محبوبیت میں تو اس کا حصہ مکہ سے یقیناً زیادہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کا بندہ، اس کا نبی اور خلیل کہا، اور اپنے کو صرف بندہ اور نبی کہا، حبیب ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تواضع اور کسر نفسی آپ کا مستقل مزاج تھا۔ بالکل نیا اور درخت کا پہلا پھل چھوٹے بچے کو بلا کر دینے میں یہ سبق ہے کہ ایسے مواقعوں پر چھوٹے معصوم بچوں کو مقدم رکھنا چاہئے۔ اس کے علاوہ نئے پھل اور کمسن بچے کی مناسبت بھی ظاہر ہے۔
Top