معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 970
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا ، أَوْ نَصْرَانِيًّا ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ : وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً. (رواه الترمذى)
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے، تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: " اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ " (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں۔ فرمایا گیا ہے کہ ان کا اس حال میں مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ) یہ اس طرح کی وعید ہے جس طرح ترک نماز کو کفر و شرک کے قریب کہا گیا ہے .... قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ المُشْرِكِينَ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک صلوٰۃ مشرکوں والا عمل ہے۔ حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی کیوں کہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، اس لیے ترک نماز کو مشرکوں والا عمل بتلایا گیا۔ اس حدیث میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے جو سخت وعید ہے اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کا جو حوالہ دیا گیا ہے اور اس کی سند پیش کی گئی ہے جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے، یعنی " وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً " لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالہ کے طور پر آیت کا یہ ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفا کیا، یہ وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے، یعنی " وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ " (جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں، وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیاز ہے) .... اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو " وَمَنْ كَفَرَ " کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور " فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ " کی وعید سنائی گئی ہے، اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند دارمی وغیرہ میں حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے مروی ہے۔
Top