معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 978
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : « وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ المَدِينَةِ ذَا الحُلَيْفَةِ ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الجُحْفَةَ ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ المَنَازِلِ ، وَلِأَهْلِ اليَمَنِ يَلَمْلَمَ ، فَهُنَّ لَهُنَّ ، وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ لِمَنْ كَانَ يُرِيدُ الحَجَّ وَالعُمْرَةَ ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ ، فَمُهَلُّهُ مِنْ أَهْلِهِ ، وَكَذَاكَ وَكَذَاكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا » (رواه البخارى ومسلم)
میقات ، احرام ، تلبیہ: مواقیت
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذو الحلیفہ کو اہل مدینہ کا میقات مقرر کیا، اور جحفہ کو اہل شام کا اور قرن المنازل کو اہل نجد کا، اور یلملم کو اہل یمن کا۔ پس یہ چاروں مقامات خود ان کے رہنے والوں کے لیے میقات ہیں، اور ان سے لوگوں کے لیے جو دوسرے علاقوں سے ان مقامات پر ہوئے ہوئے آئیں جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو۔ پس جو لوگ ان مقامات کے ورے ہوں (یعنی ان مقامات سے مکہ معظمہ کی طرف سے رہنے والے ہوں) تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے۔ اور یہ قاعدہ اسی طرح چلے گا، یہاں تک کہ خاص مکہ کے رہنے والے مکہ ہی سے احرام باندھیں گے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
کعبہ مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا قبلہ اور اپنا محترم و مقدس " بیت " (گھر) قرار دیا ہے، اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، جو لوگ وہاں ھاضری کی استطاعت رکھتے ہوں، ان پر عمر میں ایک دفعہ حاضر ہونا اور حج کرنا فرض کیا ہے، اور اس حاضری اور حج کے کچھ لازمی آداب مقرر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حاضر ہونے والے اپنے روزمرہ کے اور عام عادی لباس مین حاضر نہ ہوں بلکہ ایسے فقیرانہ لباس میں حاضر ہوں جو مردوں کے کفن سے مشابہت رکھتا ہو، اور آخرتمیں میدان حشر کی حاضری کو یاد دلاتا ہو ...... کرتا، پاجامہ، صدری، شیروانی، کوٹ، پتلون کچھ نہ ہو بس ایک تہبند باندھ لیں، اور ایک چادر جسم کے اوپر کے حصے میں ڈال لیں، سر بھی کھلا ہو، پاؤںمیں موزہ بلکہ ایسا جوتا بھی نہ ہو جس سے پورا پاؤں ڈھک جائے۔ (1) اسی قسم کی کچھ اور بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کا منشاء یہ ہے کہ بندہ ایسی ہیئت اور صورت میں حاضر ہو جس سے اس کی عاجزی اور بےچارگی اور بے حیثیتی و بے مائگی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی ظاہر ہو .... لیکن بندوں کے ضعف کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کو اس کا مکلف نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے گھر ہی سے احرام بند اور ان آداب کے پابند ہو کے روانہ ہوں، اگر یہ حکم دیا جاتا تو اللہ کے بندے بڑی مشکل میں پڑ جاتے۔ اب سے کچھ ہی زمانہ پہلے تک بہت سے ملکوں کے حاجی کئی کئی مہینے سفر کرنے کے بعد مکہ معظمہ پہنچا کرتے تھے، اور اب بھی بہت سے ملکوں کے حجاج کئی کئی ہفتے کا بری اور بحری سفر کر کے وہاں پہنچتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی طویل مدت تک احرام کی پابندیوں کا نبھانا اکثر لوگوں کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے، اس لیے مختلف راستوں سے آنے والے حجاج کے لیے مکہ معظمہ کے قریب مختلف سمتوں میں کچھ مقامات مقرر کر دئیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے آنے والے جب ان میں سے کسی مقام پہ پہنچیں تو " بیت اللہ " اور " بلد اللہ الحرام " کے ادب میں وہیں سے احرام بن ہو جائیں .... مختلف سمتوں کے یہ معین مقامات جن کی تفصیل آگے آئے گی " میقات " کہلاتے ہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ احرام باندھنے کا مطلب صرف احرام والے کپڑے پہن لینا نہیں ہے، بلکہ یہ کپڑے پہن کے پہلے دو رکعت نماز (دوگانہ احرام) پڑھی جاتی ہے اس کے بعد پکار کر تلبیہ پڑھا جاتا ہے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ اس تلبیہ کے پڑھنے کے بعد آدمی محرم (احرام بند) ہو جاتا ہے، اور اسی سے حج کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اور احرام والی ساری پابندیاں اس پر عائد ہو اجاتیں ہیں .... جس طرح تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد نماز کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور نماز والی ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ اس تمہید کے بعد مواقیت، احرام اور تلبیہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذیل احادیث پڑھئے:
Top