معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 983
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا يَقُولُ : « لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ » لاَ يَزِيدُ عَلَى هَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ. (رواه البخارى ومسلم)
تلبیہ احرام
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا اس حال مین کہ آپ کے سر کے بال جمے ہوئے اور مرتب طور پر لگے ہوئے تھے (جیسا کہ غسل کے بعد سر کے بالوں کا حال ہوتا ہے) آپ اس طرح تلبیہ پڑھتے تھے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ. " میں حاضر ہوں خدا وندا تیرے حضور حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک ساتھی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں، ساری حمد و ستائش کا تو ہی سزاوار ہے اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں، اور ساری کائنات میں فرماں روائی بھی بس تیری ہی ہے،، تیرا کوئی شریک نہیں " یہی کلمات تلبیہ آپ پڑھتے تھے، ان پر کسی اور کلمہ کا اضافہ نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعہ اپنے بندوں کو حج یعنی اپنے دربار کی حاضری کا بلاوا دلوایا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے) تو حج کو جانے والا بندہ جب احرام باند کے یہ تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ ابراہیم علیہ السلام کی اس پکار اور اللہ تعالیٰ کے اس بلاوے کے جواب میں عرض کرتا ہے کہ خداوندا تو نے اپنے دربار کی حاضری کے لیے بلوایا تھا اور اپنے خلیل علیہ السلام سے ندا دلوائی تھی۔ میں ھاضر ہو اور سر کے بل حاضر ہوں .... لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ.... الخ
Top