معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 988
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، فَسَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِكَ ، يَا ابْنَ أَخِي ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ ، فَسَأَلْتُهُ ، وَهُوَ أَعْمَى ، وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا ، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا ، وَرِدَاؤُهُ عَلَى جَنْبِهِ ، عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَصَلَّى بِنَا ، فَقُلْتُ : أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ ، حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ : « اغْتَسِلِي ، وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي » فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ ، نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ ، مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ ، وَمَا عَمِلَ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ « لَبَّيْكَ اللهُمَّ ، لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ » وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ.
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
جعفر بن محمد (جو سیدنا حسین بن علی ؓ کے پرپوتے ہیں، اور امام جعفر صادق کے لقب سے معروف ہیں) اپنے والد ماجد محمد بن علی (معروف بہ امام باقر) سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم چند ساتھی جابر بن عبداللہ کی خدمت میں پہنچے، انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ ہم کون کون ہیں؟ (ہم میں سے ر ایک نے اپنے متعلق بتلایا) یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی بن حسین ہوں (وہ اس وقت بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو چکے تھے انہوں نے شفقت اور محبت سے) اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا، پھر میرے کرتے کی اوپر والی گھنڈی کھولی، اس کے نیچے والی گھنڈی کھولی، پھر اپنا ہاتھ (کرتے کے اندر لے جا کر) میرے بیچ سینے پر رکھا، اور میں ان دنوں بالکل جوان تھا (1)، اور (میرے آنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے) مجھ سے فرمایا: مَرْحَبًا بِكَ، يَا ابْنَ أَخِي (مرحبا! میرے بھتیجے، میرے بھائی حسین کی یادگار!!) جو کچھ تمہیں مجھ سے پوچھنا ہے بے تکلف پوچھو! (امام باقرؒ کہتے ہیں) کہ اس اثناء میں نماز کا وقت آ گیا۔ حضرت جابر ؓ ایک چھوٹی سی چادر لپیٹے ہوئے تھے، وہ اسی میں لپٹے ہوئے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے، اور اس کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے حالت یہ تھی کہ جب وہ اس کو اپنے مونڈھوں پر رکھتے تو اس کے کنارے اٹھ کر ان کی طرف آ جاتے، حالانکہ ان کی رداء (یعنی بڑی چادر) ان کے قریب ہی لٹکن پر رکھی ہوئی تھی (مگر انہوں نے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھا، بلکہ وہی چھوٹی چادر لپیٹ کر ہمیں نماز پڑھائی) نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے کہا کہ: " مجھے رسول اللہ ﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کی تفصیلات بتائیے؟ " .... انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے نو کی گنتی کا اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آ کر نو سال تک کوئی حج نہیں کیا۔ پھر ۱۰؁ھ میں آپ نے اعلان کرایا کہ اس سال آپ کا ارادہ حج کرنے کا ہے۔ یہ اطلاع پا کر لوگ بہت بڑی تعداد میں مدینہ آ گئے۔ ہر ایک کی خواہش اور آرزو یہ تھی کہ اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی پوری پوری پیروی کرے اور آپ کے نقش قدم پر چلے ..... (حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ: پھر جب روانگی کا دن آیا تو رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں) یہ پورا قافلہ مدینہ سے روانہ ہو کر ذو الحلیفہ آیا، اور اس دن یہیں قیام کیا۔ یہاں پہنچ کر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ اسماء بنت عمیس (جو ابو بکر صدیق ؓ کی بیوی تھیں، اور وہ بھی اس قافلہ میں تھیں) ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا (یعنی محمد بن ابی بکر)۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ایسی حالت میں میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ اسی حالت میں احرام کے لیے غسل کر لیں، اور جس طرح عورتیں ایسی حالت میں کپڑے کا لنگوٹ استعمال کرتی ہیں اسی طرح استعمال کریں، اور احرام باندھ لیں ..... پھر رسول اللہ ﷺ نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں آخری نماز (ظہر کی) پڑھی، پھر آپ ﷺ اپنی ناقہ قصواء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب ناقہ (مسجد ذو الحلیفہ سے کچھ آگے بڑھ کر) بیداء پر پہنچی (جو ذوالحلیفہ کے قریب ہی ذرا بلند اور ہموار میدان سا تھا) تو میں نے اس بلندی سے ہر طرف نگاہ دوڑائی تو آگے پیچھے دائیں بائیں حد نظر تک سوار اور پیادے آدمی ہی آدمی نظر آئے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں تھے اور آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ اس کی حقیقت اور اس کا صحیح مطلب و مدعا جانتے تھے (اس لیے آپ جو کچھ بھی کرتے تھے اللہ کے حکم اور اس کی وحی کے مطابق کرتے تھے) اور ہمارا رویہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ کو کرتے دیکھتے تھے وہی ہم بھی کرتے تھے (تو جب آپ کی ناقہ بیداء پر پہنچی) اس وقت آپ نے بلند آواز میں توحید کا یہ تلبیہ کہا: لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ. اور آپ ﷺ کے رفقاء صحابہ جو تلبیہ پڑھتے تھے (جس میں بعض الفاظ کا اضافہ بھی ہوتا تھا) انہوں نے اپنا وہی تلبیہ بلند آواز سے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے تلبیہ کی کوئی تردید اور تغلیظ نہیں کی اور خود اپنا ہی تلبیہ پڑھتے رہے (مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد صحابہ تلبیہ میں بعض تعظیمی اور تعبدی کلمات کا اضافہ کر کے پکارتے تھے، اور چونکہ اس کی اجازت اور گنجائش ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا، لیکن آپ نے اپنے تلبیہ میں کوئی کمی زیادتی نہیں فرمائی)۔

تشریح
اس بارے میں علماء کے اختلاف رائے کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حج کی فرضیت کا حکم کس سنہ میں آیا، اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ راجح قول یہ ہے کہ ۸؁ھ میں مکہ معظمہ پر اسلامی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد ۹؁ھ میں حج کی فرضیت کا حکم آیا۔ اس سال رسول اللہ ﷺ نے خود تو حج نہیں فرمایا، لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کی امارت میں اس سال حج ادا ہوا، اور آئندہ کے لیے چند اہم اعلانات کئے گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آئندہ کوئی مشرک اور کافر حج میں شرکت نہیں کر سکے گا اور جاہلیت کے گندے اور مشرکانہ طور طریقوں کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی .... غالباً رسول اللہ ﷺ کے اس سال خود حج نہ کرنے کی خاص حکمت یہ بھی تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا حج ایسا مثالی حج ہو جس میں کوئی ایک آدمی بھی کفر و شرک اور جاہلیت کے طور طریقوں سے حج کو مکدر کرنے والا نہ ہو، بلکہ از اول تا آخر بس نور ہی نور اور خیر ہی خیر ہو، اور آپ کی دعوت ہدایت اور تعلیم و تربیت کے نتائج کا صحیح آئینہ ہو .... اس طرح گویا ۹؁ھ کا یہ حج جو صدیق اکبر کی امارت میں ادا ہوا اگلے سال ہونے والے آپ کے حج کا پیش خیمہ اور اس کی تیاری کے سلسلہ ہی کا ایک قدر تھا۔ پھر اگلے سال ۱۰؁ھ میں جو آپ کی حیا مبارکہ کا آخری سال ہے آپ نے حج کا ارادہ فرمایا، اور چونکہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ اب دنیا میں آپ کے قیام اور کام کا وقت تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے اس لیے آپ نے اس ارادہ حج کی خاص اہتمام سے اطلاع اور تشہیر کرائی تا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل و احکام سیکھ سکیں اور سفر حج کی صحبت و رفاقت کے خاص برکات حاصل کر سکیں۔ چنانچہ دور و قریب کے ہزارہا مسلمان جن کو اس کی اطلاع ہوئی اور ان کو کوئی خاص مجبوری نہیں تھی مدینہ طیبہ آ گئے۔ ۲۴ ذی قعدہ کو جمعہ تھا اس دن آپ ﷺ نے خطبہ میں حج اور سفر حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایتیں دیں اور اگلے دن ۲۵ ذیقعدہ ۱۰؁ھ بروز شنبہ بعد نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان قافلہ روانہ ہوا، اور عصر کی نماز ذو الحلیفہ جا کر پڑھی، جہاں آپ کو پہلی منزل کرنی تھی، اور یہیں سے احرام باندھنا تھا، رات بھی وہیں گزاری ار اگلے دن یکشنبہ کو ظہر کی نماز کے بعد آپ نے اور کے صحابہ کرام ؓ نے احرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے اور نویں دن ۴ ذی الحجہ کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے .... رفقاء سفر کی تعداد میں راستہ میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں روایات میں بہت اختلاف ہے۔ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار اور ایک لاکھ تیس ہزار تک کے بیانات روایتوں میں موجود ہیں۔ اس عاجز کے نزدیک یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ بڑے مجمعوں اور میلوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے اندازے آج بھی مختلف ہوتے ہین، جس نے جو عدد بتایا اپنے اندازے کے مطابق بتایا۔ باقاعدہ حساب لگا کے اور شمار کر کے کسی نے بھی نہیں بتایا، تاہم اتنی بات بطور قدر مشترک کے تمام ہی روایات میں ہے کہ مجمع بے حد و حساب تھا، جدھر نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر پڑتے تھے۔ اس حج میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر خطبے دئیے اور بالکل اس انداز سے بلکہ صاف صاف یہ آگاہی دے کے یہ خطبے دئیے ک اب میرا وقت موعود قریب ہے اور تمہیں دین کی تعلیم و تربیت مجھ سے حاصل کرنے کا موقع اس کے بعد نہیں مل سکے گا۔ بہر حال اس پورے سفر میں آپ نے تعلیم و تلقین اور ہدایت و ارشاد کا خاص اہتمام فرمایا۔ حجۃ الوداع کے سلسلے مین جو روایات کتب حدیث میں ہیں (جن میں سے چند یہاں بھی درج کی جا رہی ہیں) ان سے حج کے مناسک و احکام اور اس کا تفصیلی طریقہ معلوم ہونے کے علاوہ دین اور شریعت کے دوسرے بہت سے ابواب اور شعبوں کے بارے میں نہایت اہم تعلیمات اور ہدایات بھی امت کو مل جاتی ہیں ..... حقیقت یہ ہے کہ قریباًٍ ایک مہینے کے اس سفر میں دین کی تعلیم و تبلیغ اور ہدایت و ارشاد کا اتنا کام ہوا، اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوا کہ اس کے بغیر برسوں بھی انجام نہیں پا سکتا .... اسی سے بعض باتوفیق اکابر امت نے سمجھا ہے کہ دین اور برکات دین حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ دینی سفروں کی رفاقت اور صحبت ہے۔ اس تمہید کے بعد حجۃ الوداع کے سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث صحیح مسلم سے نقل کی جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ حدیث بہت طویل ہے اس لیے ناظرین کی سہولت فہم کے لیے اس کے ایک ایک حصہ کا ترجمہ کر کے تشریح کی جائے گی۔
Top