معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 989
قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ : لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ، ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ : {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ : {إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ} « أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ » فَبَدَأَ بِالصَّفَا ، فَرَقِيَ عَلَيْهِ ، حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَوَحَّدَ اللهَ وَكَبَّرَهُ ، وَقَالَ : « لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ » ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ ، قَالَ : مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا ، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ ، نَادَى وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ وَالنَّاسُ تَحْتَهُ فَقَالَ : « لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ ، وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً » ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى ، وَقَالَ : « دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ » مَرَّتَيْنِ « لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ »
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
حضرت جابر ؓ نے (حجۃ الوداع کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے) بتلایا کہ اس سفر میں ہماری نیت (اصلاً) صرف حج کی تھی (مقصد سفر کی حیثیت سے) عمرہ ہمارے ذہن میں نہیں تھا، یہاں تک کہ جب ہم سفر پورا کر کے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پر پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے حجر اسود کا استلام کیا (یعنی قاعدے کے مطابق اس پر ہاتھ رکھ کر اس کو چوما، پھر آپ ﷺ نے طواف شروع کیا) جس میں تین چکروں میں آپ نے رمل کیا (یعنی وہ خاص چال چلے جس میں قوت اور شجاعت کا اظہار ہوتا ہے) اور باقی چار چکروں میں اپنی عادت کے مطابق چلے پھر (طواف کے سات چکر پورے کر کے) آپ مقام ابراہیمؑ کی طرف بڑھے، اور یہ آیت تلاوت فرمائی: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى (اور مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو) پھر اس طرح کھڑے ہو کر کہ مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا آپ نے نماز پڑھی (یعنی دو گانہ طواف ادا کیا۔) حدی کے راوی امام جعفر صادق بیان کرتے ہیں کہ: میرے والد ذکر کرتے تھے کہ ان دو رکعتوں میں آپ ﷺ نے قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ کی قراءت کی۔ اس کے بعد آپ پھر حجر اسود کی طرف واپس آئے اور پھر اس کا استلام (1) کیا، پھر ایک دروازہ سے (سعی کے لیے) صفا پہاڑی کی طرف چلے گئے اور اس کے بالکل قریب پہنچ کر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں جن کے درمیان سعی کا حکم ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: " میں اسی صفا سے سعی شروع کرتا ہوں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے کیا ہے۔ چنانچہ آپ پہلے صفا پر آئے اور اس حد تک اس کی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ آپ کی نظر کے سامنے آ گیا، اس وقت آپ قبلہ کی رخ، رخ کر کے کھڑے ہو گئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر اور تمجید میں مصروف ہو گئے۔ آپ ﷺ نے کہا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پرستش کے لائز نہیں، وہی تنہا معبود مالک ہے کوئی اس کا شریک ساجھی نہین، ساری کائنات پر اسی کی فرماں روائی ہے، اور حمد و ستائش اسی کا حق ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی تنہا مالک و معبود ہے۔ اس نے (مکہ پر اور سارے عرب پر اقتدار بخشنے اور اپنے دین کو سربلند کرنے کا) اپنا وعدہ پورا فرمایا، اپنے بندے کی اس نے بھرپور مدد فرمائی، اور کفر و شرک کے لشکروں کو اس نے تنہاء اسی نے شکست دی) ..... آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے اور ان کے درمیان دعا مانگی۔ اس کے بعد آپ ﷺ اتر کر مروہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے تو آپ کچھ دوڑ کے چلے پھر جب آپ نشیب سے اوپر آ گئے تو پھر اپنی عام رفتار کے مطابق چلے، یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر آ گئے اور یہاں آپ نے بالکل وہی کیا جو صفا پر کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب آپ آخری پھیرا پورا کر کے مروہ پر پہنچے، آپ نے اپنے رفقاء صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ..... اگر پہلے سے میرے خیال میں وہ بات آ جاتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے ساتھ نہ لاتا اور اسی طواف و سعی کو جو میں نے کیا ہے عمرہ بنا دیتا ..... تو اب میں تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم میں سے جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں آئے ہیں وہ اپنا احرام ختم کر دیں اور اب تک جو طواف و سعی انہوں نے کی ان کو عمرہ بنا دیں ..... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ بن مالک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ حکم کہ اشہر حج (حج کے مہینوں) میں عمرہ کیا جائے خاص اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے حکم ہے ..... آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا کہ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ (عمرہ حج میں داخل ہو گیا، خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے)۔

تشریح
آپ ﷺ نے مروہ کے خاتمہ پر جو یہ بات فرمائی کی " جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے طواف و سعی کو عمرہ قرار دے دیں، اور میں بھی اگر قربانی کے جانور ساتھ نہ لایا ہوتا تو ایسا ہی کرتا " ..... اس کا مطلب اور اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ زمانہ جاہلیت میں حج اور عمرہ کے سلسلہ میں جو اعتقادی اور عملی غلطیاں اور رواج پر کر دلوں میں راسخ ہو چکی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ جو " اشهر الحج " (یعنی حج کے مہینے) کہلاتے ہیں (کیوں کہ حج کا سفر انہی مہینوں میں ہوتا ہے) ان مہینوں میں عمرہ کرنا سکٹ گناہ سمجھا جاتا تھا، حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور من گھڑت تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے شروع سفر ہی میں وجاحت کے ساتھ لوگوں کو یہ بات بتا دی تھی کہ جس کا جی چاہے صرف حج کا احرام باندھے (جس کو اصطلاح مین افراد کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے شروع میں صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ معظمہ میں عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حج کے لیے دوسرا احرام باندھے (جس کو تمتع کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھے اور ایک ہی احرام سے دونوں کو ادا کرنے کی نیت کرے۔ (جس کو قران کہتے ہیں) ..... آپ کا یہ ارشاد سننے کے بعد صحابہ کرام مین سے غالباً چند ہی نے اپنے کاص حالات سے تمتع کا رادہ کیا، اور انہوں نے ذو الحلیفہ میں صرف عمرہ کا احرام باندھا ..... ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی تھیں۔ ورنہ زیادہ تر صحابہ نے صرف حج کا یا حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھا۔ خود رسول اللہ ﷺ نے دونوں کا احرام باندھا، یعنی (قِران) اختیار فرمایا۔ اس کے علاوہ اپنی قربانی کے جانور (اونٹ) بھی آپ مدینہ طیبہ ہی سے ساتھ لے کر چلے، اور جو حاجی قربانی کے جانور ساتھ لے کر چلے وہ اس وقت تک احرام ختم نہیں کر سکتا جب تک دسویں ذی الحجہ کو قربانی نہ کر دے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام جو آپ ﷺ کی طرح اپنی قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے حج سے پہلے (یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرنے سے پہلے) احرام سے باہر نہیں آ سکتے تھے، لیکن جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے ان کے واسطے یہ شرعی مجبوری نہیں تھی۔ مکہ معظمہ پہنچ کر آپ کو اس کا حساس زیادہ ہوا کہ یہ جو جاہلانہ بات لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سخت گناہ ہے اس کی تردید اور بیخ کنی کے لیے اور دماغوں سے اس کے جراثیم ختم کرنے اور دلوں سے اس کے اثرات کو دھونے کے لیے ضروری ہے کہ وسیع پیمانے پر ان کے خلاف عمل کر کے دکھایا جائے، اور اس کی ممکن صورت یہی تھی کہ آپ ﷺ کے ساتھیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ جو آپ کے ساتھ طواف اور سعی کر چکے تھے، اس طواف اور سعی کو عمرہ قرار دے کے احرام ختم کر دیں اور حلال ہو جائین اور حج کے لیے اس کے وقت پر دوسرا احرام باندھیں، اور خود آپ چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لے کے آئے تھے اس لیے آپ کے لیے اس کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ: " اگر شروع میں مجھے اس بات کا احساس ہو جاتا جس کا احساس بعد میں ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا، اور جو طواف و سعی میں نے کی ہے اس کو مستقل عمرہ قرار دے کر یہ احرام ختم کر دیتا (لیکن میں تو قربانی کے جانور لانے کی وجہ سے ایسا کرنے سے مجبور ہوں، اس لیے آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ) آپ میں سے جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے اس طواف و سعی کو مستقل عمرہ قرار دے دیں اور اپنا احرام ختم کر کے حلال ہو جائیں " .... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ (1) بن مالک کھڑے ہو گئے، چونکہ وہ اب تک یہی جانتے تھے کہ حج کے مہینوں میں مستقل عمرہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے، اس لیے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ: ان دنوں میں مستقل عمرہ کرنے کا یہ حکم کیا صرف اسی سال کے لیے ہے، یا اب ہمیشہ کے لیے مسئلہ یہی ہے کہ اشہر حج میں مستقل عمرہ کیا جا سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اچھی طرح سمجھانے اور ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں مین ڈال کر فرمایا: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ (حج میں عمرہ اس طرح داخل ہو گیا) یعنی حج کے مہینوں میں اور ایام حج کے بالکل قریب بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے، اور اس کو گناہ سمجھنے والی بات بالکل غلط ارو جاہلانہ ہے، اور یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے۔
Top